نوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال کا ہفتہ ہر سال 15 سے 21 نومبر تک منایا جاتا ہے جس کا مقصد نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح کو کم کرنا اور مناسب دیکھ بھال کے لیے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ ایک بچے کی پیدائش نہ صرف اس کے لیے بلکہ اس کی ماں کے لیے بھی کسی معجزے سے کم نہیں ہوتی ہے۔ لیکن پیدائش کے بعد بچے کی جسمانی اور ذہنی نشوونما درست طریقے سے ہونی چاہیے اور وہ کسی بیماری یا انفیکشن کی زد میں نہ آئے اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ اس کی دیکھ بھال کا خاص خیال رکھا جائے۔
پیدائش کے بعد پہلے 28 دنوں میں نوزائیدہ بچوں میں ناپختگی، بیماری، انفیکشن یا کسی اور وجہ سے موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال نوزائیدہ بچوں کی ایک بڑی تعداد کئی دیگر وجوہات کی وجہ سے جان بحق ہوجاتی ہے۔ قومی نوزائیدہ دیکھ بھال کا ہفتہ ہر سال 15 سے 21 نومبر تک منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح کو کم کرنے اور انہیں صحت مند زندگی فراہم کرنے کے لیے آگاہی مہم چلائی جاتی ہے۔
نوزائدہ بچوں کے پہلے 28 دن کافی حساس ہوتے ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد پہلے 24 گھنٹے اور پہلے 28 دن بہت حساس ہوتے ہیں۔ یہ ان کی زندگی بھر کی صحت اور ترقی کے لیے ایک بنیادی مدت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات پیدائش کے وقت بچے کی ضروری جسمانی نشوونما کے فقدان، انفیکشن، اندرونی پیچیدگیوں اور پیدائشی خرابی کی وجہ سے ہر سال نوزائیدہ بچوں کی ایک بڑی تعداد پیدائش کے بعد پہلے مہینے میں ہلاک ہوجاتی ہے۔
اعداد و شمار کیا کہتے ہیں
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سال 2019 میں تقریباً 2.4 ملین بچے پیدائش کے پہلے مہینے میں مذکورہ وجوہات کی بناء پر موت کے منہ میں چلے گئے جن میں سے 20 لاکھ سے زائد بچے کی مردہ پیدائش ہوئی تھی۔ تاہم حکومتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ، سماجی اور ذاتی کوششوں کی وجہ سے بچے کی پیدائش کے ایک ماہ کے اندر ہونے والی اموات کی شرح میں کچھ کمی آئی ہے۔ مثال کے طور پر ،سال 2019 میں، بھارت میں بچوں کی اموات کی شرح 44 فی 1000 تھی، جب کہ سال 2000 میں یہ تعداد 22 فی 1000 ریکارڈ کی گئی۔ لیکن پھر بھی اموات کی شرح کو کم کرنے کے لیے مسلسل کوشش جاری ہے۔ حکومتی اعدادوشمار میں یہ خیال کیا گیا ہے کہ اگر 2035 تک پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات کو فی 1000 بچوں پر 20 یا اس سے کم کرنا ہے تو اس کے لیے مخصوص کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
غور طلب ہے کہ پیدائش کے پہلے مہینے میں، 35% بچے ضروری جسمانی نشوونما کی کمی یا ناپختگی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ 33% نوزائیدہ انفیکشن کی وجہ سے، 20% انٹرا پارٹم پیچیدگیوں یا سانس کی گرفت اور دم گھٹنے کی وجہ سے اور تقریباً 9% پیدائشی طور پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ پیدائش کے دوران اور پیدائش کے بعد، پہلے ہفتے اور پہلے مہینے میں ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اور بروقت علاج کر کے تقریباً 75 فیصد نوزائیدہ اموات کو روکا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ ماں اور اس کے گھر والوں کو اس بارے میں مکمل معلومات حاصل ہوں۔