ہمارا جسم صحت مند تبھی ہوگا جب اسے مطلوبہ مقدار میں تغذیہ بخش غذا ملتے رہیں گے۔ لیکن آج کے دور میں تقریباً ہر عمر کے لوگوں میں ناقص غذائیت کی عادتیں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ جسم میں تغذیہ بخش غذا کی کمی کی وجہ سے موجودہ دور میں ہر عمر کے لوگوں میں مختلف قسم کی بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ Increase in various diseases due to unhealthy food
اسی حوالے سے ہر سال خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت کی جانب سے حکومت ہند کے فوڈ اینڈ نیوٹریشن بورڈ کے ذریعہ قومی غذائیت کا ہفتہ منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں کو جسم سے متعلق تغذیہ بخش غذا کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔ (National Nutrition Week)
اچھی صحت کے لیے سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے تغذیہ سے بھرپور خوراک کی، یعنی ایسی خوراک جس میں پروٹین، وٹامنز، کیلشیم، آئرن اور منرلز سمیت ہر قسم کے تغذیہ بخش خوراک ضروری مقدار میں ہوں۔ معالجین کا ماننا ہے کہ جسم میں زیادہ تر بیماریوں کے لیے کسی نہ کسی تغذیہ عنصر کی کمی ذمہ دار ہوتی ہے۔
تغذیہ بخش خوراک کی کمی نہ صرف جسمانی بیماریوں کی سبب بن سکتی ہے بلکہ ہر عمر کے لوگوں میں کئی طرح کے ذہنی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ خاص طور پر جسم میں تغذیہ کی کمی بچوں کی صحت اور ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ حاملہ خواتین میں تغذیہ بخش خوراک کی کمی نہ صرف ان کی زندگی بلکہ رحم میں موجود بچے کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
جسم کے لیے تغذیہ بخش خوراک کی ضرورت کو جاننے اور قبول کرنے کے باوجود، بہت سے لوگ اپنی عام زندگی میں خوراک کے بارے میں زیادہ سنجیدہ نہیں رہتے ہیں۔ ہر سال ستمبر کے پہلے ہفتے میں نیشنل نیوٹریشن ویک کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں کو صحت مند جسم کے لیے تغذیہ کی ضرورت سے آگاہ کرنا اور صحت مند تغذیہ کے بارے میں بتانا ہے۔ اس سال بھی یہ خصوصی ہفتہ یکم ستمبر سے 7 ستمبر تک "سیلیبریٹ ورلڈ آف فلیور" (Celebrate World of Flavor Theme) کے تھیم پر منایا جا رہا ہے۔
تاریخ: نیشنل نیوٹریشن ویک منانے کا آغاز سب سے پہلے امریکن ڈائیٹیٹکس ایسوسی ایشن کی جانب سے 1975 میں کیا گیا تھا۔ وہیں بھارت میں لوگوں کو صحت مند کھانے اور صحت کے بارے میں آگاہ کرنے کے غرض سے سب سے پہلے 1980 میں اسے ایک خاص مہینے کے طور پر منایا گیا۔ لیکن بعد میں سال 1982 میں بھارتی حکومت نے ستمبر کے پہلے ہفتہ کو قومی تغذیہ کے ہفتہ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ اور آج حکومت ہند کی وزارت برائے خواتین اور بچوں کی ترقی کے تحت فوڈ اینڈ نیوٹریشن بورڈ کے زیر اہتمام ملک بھر میں کئی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ Women and child development ministry india. Ministry of wcd
گلوبل ہنگر ہیلتھ انڈیکس کے مطابق غذائی قلت کے پیش نظر بھارت 116 ممالک میں 101 ویں نمبر پر ہے۔ کیونکہ یہاں بڑی تعداد میں بچوں کی موت کا ذمہ دار غذائی قلت ہے۔ لیکن غذائیت کی کمی صرف بچوں کو ہی متاثر نہیں کرتی۔ بلکہ بالغوں میں بھی تغذیہ کی کمی زیادہ تر بیماریوں اور مسائل کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اور ماہرین ہمیشہ خوراک میں متوازن تغذیہ برقرار رکھنے پر زور دیتے ہیں۔ کیونکہ تغذیہ سے بھرپور غذا جسم کی قوت مدافعت کو بہتر بناتی ہے اور میٹابولزم کو مضبوط کرتی ہے۔ جو جسم کے تمام افعال کو آسانی سے چلانے کے ساتھ ساتھ دیگر بیماریوں اور انفیکشن سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں:
کووڈ-19 کے دوران بھی ڈاکٹروں نے عام لوگوں کو انفیکشن سے بچنے اور جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے خوراک میں تغذیہ کی مقدار بڑھانے کا مشورہ دیا تھا۔ تاکہ جسم کی قوت مدافعت کو بہتر بنایا جاسکے۔ اس کے ساتھ ہی انفیکشن سے متاثرہ افراد کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ وہ اپنی خوراک میں تغذیہ سے بھرپور عناصر کی مقدار بڑھائیں تاکہ ان کا جسم جلد از جلد صحت یاب ہو سکے۔
دہلی کی ماہر نیوٹریشنسٹ دیویا شرما بتاتی ہیں کہ ہمارے ملک میں لاکھوں بچے اور خواتین تغذیہ کی قلت کے شکار ہیں۔ اس کے لیے صرف خوراک کی کمی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ وہ کہتی ہیں کہ موجودہ دور میں بہت سے امیر خاندانوں میں بھی غیر متوازن طرز زندگی خصوصاً غیر تغذیہ بخش غذا کو اپنانے کی وجہ سے لوگوں میں غذائیت کی کمی کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
دیویا شرما کے مطابق بعض اوقات میں لوگ ذائقے میں تبدیلی کے لیے تغذیہ بخش غذا خوراک کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن معمول کی خوراک کے طور پر ہمیشہ تغذیہ سے بھرپور، متوازن اور تازہ بنائی گئی خوراک لینا ضروری ہے جس میں پھل، سبزیاں بالخصوص ہری سبزیاں، دالیں اور اناج شامل ہیں۔ اگر ایک ہی شخص اس قسم کی خوراک دن میں دو بار بھی لے تو جسم میں تغذیہ کی کمی کو کافی حد تک دور کیا جاسکتا ہے۔