ماہرین کی جانب سے کووڈ 19 کی نئے قسم کے حوالے سے فکر مندی کے درمیان اومیکرون New COVID Variant Omicronکے دریافت ہونے کی خبر نے سب کو حیران کردیا ہے۔ اس اس نئے ویرئنٹ کے نام کو سیکھنے تک یہ وائرس آسٹریلیا اور دیگر ممالک تک پہنچ چکا ہے۔
کورونا کے اس نئے لہر کا خوف لوگوں کے خیالات میں طوفان کا باعث بن سکتا ہے۔ کورونا کے معاملات میں کمی آنے کے بعد لوگوں کو امید تھی کہ وہ جلد ہی اپنے خوف کو پیچھے چھوڑ دیں گے، لیکن اب ان میں یہ سوال پیدا ہورہے ہیں کہ کیا انہیں دوبارہ ماسک اور لاک ڈاؤن کا سامنا ہوگا؟ کیا بوسٹر شاٹس کی ضرورت ہوگی اور کیا ایک بار پھر کورونا کے ڈر سے سرحدیں بند کردی جائیں گی؟
دی یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے اسکول آف سائکلوجیکل سائنس میں ریسرچ فیلو جیولی جی بتاتی ہیں کہ آسٹریلیا کے ہیلف لائن نمبر 24 گھنٹے کی کرائسس سپورٹ سروس لائف آسٹریلیا کو اگست ماہ میں فی دن 3 ہزار 505 کالز کی گئی، جو ملک کی 57 سال کی تاریخ میں روزانہ کی جانے والی کالوں کی تعداد میں سب سے زیادہ ہے۔ اس سال کے آغاز سے 6 لاکھ 94ہزار 4 سو پریشان آسٹریلیائی شہروں نے مدد کے لیے اس لائف لائن پر کال کیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کالز معاشی مشکلات، خراب رشتہ، اکیلاپن اور خود کشی کی کوشش جیسے مسائل سے متعلق کالز کیے گئے۔ وہیں ستمبر ماہ بھی کالز کی تعداد زیادہ رہی، یہ کالز گزشتہ سال کے اسی وقت کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ تھی۔
آسٹریلیا کے مینٹل ہیلتھ تھِنک ٹینک کی تازہ ترین رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ کووڈ نے پہلے سے ہی پریشان لوگوں کے لیے جذباتی، سماجی اور مالی مشکلات پیدا کردی ہے۔ ان لوگوں میں بچے، نوجوان، خواتین، ہیلتھ کئیر ورکز، بے روزگار یا جنہیں روزگار جانے کا خطرہ ہے اور جسمانی اور ذہنی طور سے بیمار لوگ شامل ہیں۔
جیولی جی بتاتی ہیں کہ اس موجودہ وقت میں ہمیں کن غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے، ہمیں نہیں معلوم لیکن ایسی کئی چیزیں ہیں جو ہمیں اپنے دماغی مدافعتی نظام کو بہتر کرنے میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔
مزید پڑھیں:
ہم کیا کرسکتے ہیں؟
- غذائیت سے بھرپور خوراک پر توجہ دیں۔
سب سے پہلے اس بات پر دھیان دیں کہ آج آپ نے اپنے دماغ کو کون سی معلومات کے لیے استعمال کیا ہے، کیا آپ نے سوشل میڈیا پر بہت سی منفی خبریں پڑھی ہیں یا ان چیزوں کے بارے میں بری خبریں پڑھی ہیں جس کے بارے میں ہم کچھ کر نہیں سکے؟ غیر یقینی صورتحال ہمیں فکرمند اور خوف زدہ محسوس کرواتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم اپنے اطراف میں مفنی معلومات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ایسے میں ہم غیر واضح چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے ہیں اور ماضی میں ہوئی غلط چیزوں کو لے کر فکرمند رہتے ہیں۔ ہماری ذہن میں بن رہے تصورات ہی ہمارے اچھے یا برے مزاج کا باعث ہیں۔ ہم جیسا سوچتے ہیں ویسا ہی محسوس بھی کرتے ہیں۔ اسلیے جب ہم برا محسوس کرتے ہیں تو ذہن میں منفی چیزیں آسانی سے آجاتی ہیں اور ہم بار بار پھر ایسا ہی محسوس کرنے لگتے ہیں۔
اس کے علاوہ اگر ہمارا دماغ خبروں اور سوشل میڈیا کی منفی تصویروں اور معلومات سے بھر جائے، ایسے میں جب بھی ہم اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن میں آسانی سے منفی تصویریں اور خیالات ابھرنے لگ جاتے ہیں۔ جو بعد میں اضطراب اور مایوسی کے منفی چکر کو ہوا دسکتا ہے، جس سے ہمیں ناامیدی اور بے بسی محسوس ہوتی ہے۔