کیا بھارت ایک بار پھر کورونا بحران (Corona Crisis) کی ایک خطرناک شکل سے دوچار ہونے والا ہے؟ وہ بھی تب جب دیوالی کے تین ہفتے بعد معاملات میں کمی دیکھنے کو ملی ہے، لیکن اس سوال کا جواب ممکنہ طور پر ہاں ہیں۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ معاملے میں کمی کی وجہ آبادی کے ایک بڑے حصہ کا پہلے ہی دوسری لہر کے دوران کورونا وائرس کے انفیکشن میں مبتلا ہونا ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں تیزی سے لوگوں کا کورونا ویکسینیشن مہم( vaccination campaign) میں حصہ لینا بھی ہے۔
ماہرین نے کووڈ کی تیسری لہر(Third Wave) سے احتیاط برتنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ دنیا میں ہر چیز کے امکانات ہوتے ہیں، ایسے ہی کورونا وائرس کے نئے اسٹرین کے آنے کے بھی امکان ہیں اور فی الحال ملک کے بڑے حصے میں موسم سرما کی آمد ہوچکی ہے، لیکن دوسری لہر کے مقابلے تیسری لہر میں ویسے تباہ کن اثرات پیدا ہونے کے امکانات کم ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ معاملات میں اضافہ کا خدشہ ہے، شاید دسمبر سے فروری کے درمیان اس کا اثر دیکھنے کو ملے گا، لیکن اس کا اثر دوسری لہر کے مقابلے میں کم ہوگا، جب بھارت نے ہزاروں لوگ کو مرتے اور لاکھوں کو اسپتال کی قطاروں میں کھڑا ہوتے دیکھا تھا۔
سونیپت کے اشوک یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف فزکس اینڈ بائیولوجی کے پروفیسر اور ماہر گوتم مینن نے بتایا کہ تیسری لہر پورے ملک میں مربوط طریقے سے نہیں پھیلے گی۔
کئی وبائی امراض کے ماہرین نے تہواروں کے موسم اکتوبر اور نومبر کے دوران کورونا وائرس کی تیسری لہر کے شباب پر ہونے کی پیشن گوئی کی تھی۔ درگا پوجا اور دیوالی کے بعد کورونا کے پھیلاؤ کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ لیکن شکر ہے کہ اس دوران کسی خطرناک صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
منگل کے روز بھارت میں کورونا کے نئے 7 ہزار 579 معاملات درج کیے گئے، جو کہ 543 دنوں میں سب سے کم ہیں۔ ان نئے تعداد کے سامنے آنے کے بعد کووڈ 19 کی کل تعداد 3 کروڑ 45 ہزار 26 ہزار 480 ہوگئی ہے۔ وہیں مرکزی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 536 دنوں میں فعال کیسز سب سے کم تھے۔مسلسل 46 دنوں تک روزانہ کورونا کے 20 ہزار سے کم نئے معاملات درج کیے گئے اور لگاتار 149 روز یومیہ 50 ہزار سے کم نئے معاملات رپورٹ ہوئے ہیں۔
مینن نے بتایا کہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کا ایک بڑا حصہ دوسری لہر سے متاثر ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ بھارت میں تیز رفتار کے ساتھ چلائی جارہی ویکسنیشن مہم کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ شدید بیماری، ہسپتال میں داخل ہونے اور موت سے محفوظ ہوگئےہیں۔
مینن کا ماننا ہے کہ 'رواں برس مارچ سے جولائی تک دوسری لہر کے دوران لوگ بڑی تعداد میں کورونا سے متاثر ہوئے اور حفاظتی نقطہ نظر سے یہ بھارت کے لیے فائدہ مند ہے۔ وہیں ویکسین بھی اس کڑی میں لوگوں کے تحفظ میں مزید اضافہ کرے گی'۔
مینن نے کہا کہ ' ایسے افراد جو پہلے کورونا سے متاثر ہوئے اور بعد میں ویکسین بھی لیے وہ ایسے افراد کے بنسبت زیادہ محفوظ ہیں جنہوں نے صرف کووڈ ویکسین لیا ہے'۔ بہت سے سائنسی مطالعات بتاتے ہیں جو لوگ قدرتی طور پر کووڈ سے متاثر ہوئے اور ویکسینیشن سے پہلے صحت یاب ہوئے، ان میں 'ہائبرڈ امیونٹی' یا 'اجتماعی مدافعت' پیدا ہوجاتی ہے۔ جو ان لوگوں کے مقابلے میں بہتر قوت مدافعت رکھتے ہیں، جن کے پاس صرف ویکسینیشن سے اینٹی باڈیز پیدا ہوئی ہے'۔
مزید پڑھیں:کووڈ-19 کی تیسری لہر، دوسری لہر سے کم خطرناک ہو سکتی ہے : آئی سی ایم آر
ماہر وائرولوجسٹ انوراگ اگروال بھی مینن سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ' کیسز کی کم تعداد کی وجہ آبادی کے ایک بڑے حصہ کا دوسری لہر کے دوران ڈیلٹا ویرینٹ سے متاثر ہونا بھی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر بالغوں نے کو ویکسین کی کم از کم ایک خوراک لی ہے، جس سے ان کا مدافعتی نظام مضبوط ہوا ہے'۔
سی ایس آئی آر انسٹی ٹیوٹ آف جینومکس اینڈ انٹیگریٹیو بائیولوجی کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ ' سیرو سروے سے معلوم ہے کہ آبادی کی اکثریت کا کورونا وبا سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے'۔