مغربی بنگال میں سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق مسلمانوں کے تحفظ کو ہر بار اصل مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس بار بھی تحفط کو ہی اصل مدعا بنا دیا گیا ہے۔ جو بنگال کے مسلمانوں کے لیے بہت نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔
بنگال اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے ریاست میں پہلے کانگریس اور بایاں محاذ کی حکومت رہی، اس پورے عرصے میں ملک کی آزادی سے مسلمانوں کی جو حالات تھی وہ خراب ہوتی گئے۔ خصوصی طور پر بایاں محاذ کے دور میں مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی پسماندگی میں اضافہ ہوا۔
2006 میں بنگال کے مسلمانوں کے حوالے جسٹس راجندر سچر لی رپورٹ سامنے آئی جس میں کہا گیا تھا کہ بنگال کے مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی خراب ہے۔ سچر کمیٹی نے بنگال کے مسلمانوں کی حالت میں بہتری لانے کے لئے سفارشات پیش کی تھی۔ 2011 میں بنگال کے اقتدار میں تبدیلی آئی ممتا بنرجی کی حکومت نے ان سفارشات کو نافذ کرنے کی بات کہی لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا۔
سچر کمیٹی میں جو تین اہم باتیں کہی گئی تھی کہ مسلمانوں کو بنگال میں شناخت،انصاف اور تحفظ کو ضروری قرار دیا گیا تھا۔ممتا بنرجی کی اقتدار کی دوسری معیاد ختم ہونے والی ہے۔ ممتا بنرجی کی دور میں بھی مسلمانوں کی کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی۔ وہ چاہے سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی،مسلمانوں کے تعلیمی ادارے یا دوسرے ملی اداروں کا حال ہو۔ ممتا بنرجی کے اقتدار میں ریاست کے سرکاری مدارس میں گزشتہ 9 برسوں میں اساتذہ کی بحالی نہیں ہوئی ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں وزیر اعلی ممتا بنرجی نے مسلمانوں کے کسی وفد سے ملاقات نہیں کی ہے۔ مغربی بنگال اردو اکاڈمی کی ایک تقریب کے علاوہ وہ مسلمانوں کے کسی تقریب میں نہیں آئی ہیں، صرف عید کے موقع پر ریڈ روڈ میں حاضری لگاتی ہیں۔
آئندہ اسمبلی انتخابات اور مسلمانوں کے لائحہ عمل کے حوالے سے سیاسی تجزیہ نگار جادب پور یونیورسٹی کے پروفیسر عبد المتین ای ٹی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مغربی بنگال کے حوالے سے سوسل میڈیا تصور بنا دیا گیا ہے کہ بی جے پی بنگال کی دوسری سب سے بڑی پارٹی ہے لیکن زمین پر بی جے پی نظر نہیں آ رہی ہے۔دوسری جانب ممتا بنرجی کی حکومت کے دس سال پورے ہونے والے ہیں۔ 2006 میں جب سچر کمیٹی کی رپورٹ آئی تھی۔ اس میں جو سفارشات پیش کئے گئے تھے بنگال میں حکومت نے اس کو نافذ نہیں کیا۔ سچر کمیٹی نے مسلمانوں کے لیے شناخت، یکساں مواقع اور تحفظ ان تینوں کو مسلمانوں کی ترقی کے لئے ضروری قرار دیا تھا لیکن ان میں سے صرف تحفظات کو ہی مدعا بنا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے معاشرتی ترقی کا معاملہ کہیں گم یو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہی وقت ہے مسلمانوں اور تمام پشماندہ طبقے سیاسی اور سماجی طور پر ایک ساتھ ہو جائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بی جے پی ہو یا ترنمول کانگریس یا دوسری سیاسی جماعتیں ان کا زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ممتا بنرجی اگر بی جے پی کو صحیح میں روکنا چاہتی ہیں تو تمام سیکولر جماعت کے ساتھ ملکر کام کریں۔ انہوں نے بتایا کہ فر فرا شریف کے جو عباس صدیقی ہیں یا ان کے دوسرے خاندان کے لوگ ان کا بنگال کے مسلمانوں میں اچھی پکڑ ہے۔ اس لئے ممتا بنرجی کو ان کو بھی اپنے ساتھ لانے کی ضرورت ہے تو ممتا بنرجی کو چاہئے وہ کانگریس، بایاں محاذ اور عباس صدیقی کے ساتھ ملکر بی جے پی سے مقابلہ کریں۔ بی جے پی کو روکنا مسلمانوں کا مدعا بنا دیا گیا ہے جبکہ یہ صرف مسلمانوں کی ذمہ داری کیوں ہے اگر بی جے پی کو روکنا ہے تو آپ سیاسی طور پر روکئے۔ بنگال میں 70 فیصد دوسرے مذاہب کے لوگ ہیں ان کی بھی اخلاقی ذمہ داری بنائیے۔ صرف مسلمان ہی بی جے پی کو روکیں گے یہ جمہوریت کے لئے کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس کبھی ایک ساتھ تھے۔ بنگال میں بی جے پی کو تقویت بھی ترنمول کانگریس کے دور میں ملی۔ مسلمانوں کی ووٹ بینک جب بایاں محاذ کا ساتھ چھوڑ کر ممتا کے ساتھ آیا تو ممتا کو اقتدار ملی لیکن مسلمانوں کے ووٹ سے اقتدار میں آنے والے سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کی ترقی کے لئے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور جب بھی مسلم ووٹ بینک کھسکتے دیکھا تو مسلمانوں کے تحفظات کے مدعے کو ہوا دے دی۔ ایک بار پھر بنگال کے اسمبلی انتخابات میں تحفظ ہی مسلمانوں کے لئے سب سے اہم مدعا ثابت یو رہا ہے۔مسلمانوں کے دوسرے اہم مسائل تعلیم و معاشرتی و معاشی ترقی کا مدعا ایل بار پھر گم ہو گیا ہے۔