اردو

urdu

By

Published : Nov 30, 2019, 6:24 PM IST

ETV Bharat / state

'بنگال میں این آرسی بی جے پی کے لیے سیم سائیڈ گول ثابت ہوسکتا ہے'

تین اسمبلی حلقوں کریم پور،کھڑکپور صدر اور کالیاگنج میں ضمنی انتخابات کے نتائج بنگال میں این آر سی کے نفاذ کی پرزور وکالت کرنے والی بی جے پی کیلئے پریشانی کا سبب بنتاجارہاہے۔ بی جے پی رہنماؤں کے ہی مختلف آراء سامنے آنے لگے ہیں۔

'بنگال میں این آرسی بی جے پی کے لیے سیم سائیڈ گول ثابت ہوسکتا ہے'
'بنگال میں این آرسی بی جے پی کے لیے سیم سائیڈ گول ثابت ہوسکتا ہے'

مغربی بنگال بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے اس کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ”بنگال میں این آر سی کہیں سیلف گول“ ثابت نہ ہوجائے اورا نتخابی مدد پہنچانے کے بجائے یہ نقصان کی وجہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

خیال رہے کہ چند مہینے قبل ہی بی جے پی کو کالیاگنج اور کھڑکپور صدر اسمبلی حلقے میں ہزاروں ووٹ کی سبقت ملی تھی مگر چندمہینے کے بعدہی ووٹ فیصد کم ہوگیا۔ کریم پور میں تو ترنمول کانگریس نے 50فیصد ووٹ حاصل کیا ہے۔جب کہ کریم پور اور کالیا گنج میں بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی ہندو رفیوجی آباد ہیں جسے بی جے پی نے شہری ترمیمی بل اور این آر سی کے نام پر لبھانے کی بھر پور کوشش کی تھی مگر داؤ الٹا ہی پڑگیا۔


بنگال بی جے پی کے نائب صدر چندر کمار بوس نے پارٹی اعلیٰ قیادت کو این آر سی کے نفاذ از سر نو غور کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”پان انڈیا اسٹریجی وی ویکانند اورنیتاجی سبھاش چندر بوس کی سرزمین پر نافذ نہیں ہوسکتی ہے۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس کے خاندان کے فرد چندر کمار بوس نے کہا کہ بی جے پی کو ریاست میں تنظیمی طور پر مضبوطی لانے پر توجہ دینی چاہیے اور یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پان انڈیا اسٹریجی سوامی وی ویکانند اور نیتاجی سبھاش چندر بوس کی سرزمین پر نافذ نہیں ہوگی۔


انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو ریاست میں انفراسٹکچر کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے نہ ووٹ بینک کیلئے پولرائزیشن پر زور دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بنگال کے عوام سیاسی طور پر بہت ہی سمجھدار ہیں۔ہماری پارٹی نے این آر سی کو اصل ایشو نہیں بنایا تھا مگر اس پر کنفیوژن پھیلا یا گیا ہے۔ہم نے کئی دیگر ایشو بھی اٹھائے ہیں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل کالیا گنج سے بی جے پی کے امیدوار کمل چندر سرکار نے بھی اپنی شکست کیلئے این آر سی کے نفاذ کے اعلان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ این آر سی پر بہت ہی زیادہ کنفیوزن پھیلا ہے۔


خیال رہے کہ 2019کے لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی نے این آر سی کو ایک بڑا ایشو بنایا تھا کہ اور وعدہ کیا تھا کہ مرکز میں حکومت قائم ہونے کے بعد بنگال میں بہر صورت این آر سی کو نافذ کیا جائے گا۔تاہم ترنمول کانگریس نے این آر سی کے ایشو کو آسام کے نکتہ نظر پرچار کیا۔جس میں 12سے 13لاکھ ہندو بنگالی بھی جگہ پانے میں ناکام رہے ہیں۔ جبکہ بی جے پی نے یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ این آر سی کا ہدف مسلم درانداز ہیں تاہم ترنمول کانگریس نے آسام این آر سی کی روشنی میں عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہندو بنگالی اس فہرست میں جگہ پانے میں ناکام رہے ہیں اس لیے این آر سی کا مقصد ہی بنگالیوں کو نشانہ بنانا ہے۔


تاہم لوک سبھا انتخاب کی مہم کے دوران بی جے پی نے کہا تھا کہ این آر سی کے نفاذ سے قبل پارلیمنٹ کے ذریعہ شہری ترمیمی بل پاس کرایا جائے گا جس میں بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان سے آنے والے ہندو،جین، بدھشٹ اور عیسائی رفیوجیوں کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی۔اس کے بعد ہی این آر سی نافذ ہوگا۔ظاہر ہے کہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ این آر سی کا مقصد مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنا ہے۔اگست میں کلکتہ میں منعقد ایک سمینار میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ تھاکہ”این آر سی کے ایشو پر بنگال کے عوام کو گمراہ کیا گیا ہے۔

میں یہاں غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے آیا ہوں۔ممتا دیدی کہتی ہیں کہ لاکھوں ہندو بنگالیوں کو نکال دیا جائے گا اس سے بڑا جھوٹ نہیں ہوسکتا ہے۔میں بنگال کے عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ این آر سی نافذ ہوگا مگر ہندو، بدھشٹ،سکھ،جین اور عیسائی رفیوجیوں کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے انہیں شہری ترمیمی بل کے ذریعہ ہندوستانی شہریت دی جائے گی۔


ضمنی انتخاب کے نتائج آنے کے بعد بنگال بی جے پی کے ریاستی صدر دلیپ گھوش نے کہا کہ بنگال میں این آر سی زیادہ دنوں تک ایشو نہیں رہے گا۔ ہم نے کبھی بھی اس کو بڑا ایشو نہیں بنایا ہے۔ستمبر گھوش نے کہا تھا کہ ترنمول کانگریس این آر سی کو ایشو بنارہی ہے۔

خیال رہے کہ 2019عام انتخابات میں بی جے پی کے انتخابی منشور میں تھا کہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی این آر سی کو مرحلہ وار نافذ کیا جائے گا۔تاہم اب یہ کہنا کہ بنگال میں بی جے پی نے کبھی بھی این آر سی کو ایشو نہیں بنایا ہے یہ ثابت کرتا ہے کہ ترنمو ل کانگریس کی مہم اور ضمنی انتخاب کے نتائج نے بی جے پی کے اس ایشو کو متاثر کردیا ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details