جمعیت العلما ہند کے ریاستی صدر صدیق اللہ چودھری نے کہا کہ ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے 1955 کے قانون میں جو شہریت ترمیمی بل میں جو باتیں کی ہیں۔ ہم اس کو نہیں مانتے اور اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں ۔ امیت شاہ نے جب ایم پی بنے تھے تو بھارت کے نام پر حلف لیا تھا کہ وہ بھارت کے دستور کے تحت کام کریں گے ۔
'بھارتی مسلمان آرایس ایس اور بی جے پی کے رحم و کرم پر نہیں' لیکن آج اس دستور کو انہوں پامال کیا ہے۔اسی دستور کے دفعہ 14 کو ختم کر دیا اس کا جواب ان کو دینا پڑے گا۔ بھارت کی عوام اس کا حساب لے گی۔ آج بھی انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر سب کو شہریت دی جائے گی ۔ کیا وہ مسلمانوں کے گارجین ہیں ۔
کیا مسلمان ان کے بھروسے پر جی رہے ہیں ہم پیدائشی طور پر بھارتی ہیں ہمیں۔ کوئی نہیں نکال سکتا ہے آسام میں انہوں نے جو کیا وہ بنگال میں کریں گے تو منھ کی کھانی پڑے گی ۔ بنگال کی زمین اتنا نرم نہیں ہے جو چاہے ۔ وہ کرلیں گیا۔آئیندہ 13 دسمبر کو ملک گیر پیمانے پر جمعیت العلما ہند یوم سیاہ منائے گی۔
پوری طاقت کے ساتھ ہم اس کی مخالفت کریں گے۔اس طرح کے بل لانا ہندوستان کے دستور سے کا مذاق بنانا ہے ۔ یہ لوگ ہندوستان کو دنیا کے سامنے شرمندہ کرنا ہے۔ ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں اور دوسرا پروگرام ہم لگاتار نکڑ میٹنگ کریں گے۔
اس کے بعد ریلیاں نکالیں گے اور آئندہ 22 دسمبر کو کولکاتا کے رانی داس منی میں جلسہ کریں گے ۔ اس میں قانون کے ماہرین سے ہم دستور میں جو ترمیم کی گئی ہے۔ وہ صحیح ہے کہ نہیں ان سے سنیں گے کہ کون بڑا ہے ہندوستان کا دستور یا دہلی کی حکومت فرد بڑا نہیں ہوتا ہے ہندوستان کا مسلمان اپنے برادر وطن کے ساتھ رہنا چاہتا ہے نہ ہماری زبان خراب ہے اور نہ بی جے پی کی طرح ہمارا دماغ خراب ہے ۔