مغربی بنگال کے دارلحکومت کولکاتا میں واقع مدرسہ عالیہ یونیورسٹی کی احاطے میں منعقد اس تقریب میں داخل ہوتے ہی غالب کے اشعار پر مبنی آرٹ کی نمائش کی گئی ہے ۔غالب کے اشعار کو آرٹ کی شکل نورالدین امرجی نے دیا ہے۔
'غالب مصوروں کے بھی محبوب شاعر ہیں' ان کی ایک کتاب غالب ایک آرٹسٹ کی نظر میں منظرعام پرآچکی ہے ۔جس پرمشہور مصنف اور کالم نویس خشونت سنگھ نے انگریزی میں تبصرہ کیا ہے۔
نورالدین امرجی خوشونت سنگھ سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب وہ یہ کتاب لے کر خوشونت سنگھ کے گھر پہنچے تو انہوں نے کتاب دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا ۔
جاتے وقت کتاب کی قیمت خاموشی سے میری جیپ میں رکھ دیا جب میں نے کہا کہ میں یہ کتاب آپ کو ہدیہ دینے آیا تھا توانہوں نے کہا کہ وہ اپنے محبوب شاعر کی کتاب بغیر قیمت نہیں لے سکتے ہیں ۔
'غالب مصوروں کے بھی محبوب شاعر ہیں' نورالدین امرجی نے بتایاکہ ایک ہفتے بعد ہی میری کتاب پر خوشونت سنگھ کا تبصرہ انگریزی اخبار میں شایع ہوگیا۔
اس سوال پر کہ غالب مصوروں کے محبوب شاعر کیوں ہیں ۔نورالدین امرجی کہتے ہیں غالب صرف مصوروں کے ہی نہیں بلکہ سماج کے تمام طبقات کے محبوب شاعر ہیں اور ہر ایک طبقہ غالب کی شاعری کو اپنی ترجمانی سمجھتا ہے ۔
جہاں تک سوال مصوروں کی ہے اس میں کوئی شک نہیں غالب کے اشعار کی منظر کشی سب سے زیادہ آسان ہے اور اسے آرٹ کے پیرہن میں تبدیل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ہے۔
نورالدین امرجی نے نہ صرف غالب کے اشعار کو آرٹ میں ڈھالا ہے بلکہ غالب کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو بھی منظرکشی کی ہے۔
غالب کے مشہور شعر یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب ۔تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا کی منظرکشی کرتے ہوئے نورالدین امرجی نے دکھلایا ہے کہ غالب ایک تخت پر بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے درجنوں افراد زانوئے تلمذ ہیں اور غالب اشعار سنارہے ہیں ۔
غالب کے جیپ میں شراب کی بوتل نظر آرہی ہے۔نورالدین امرجی نے بتایاکہ ماہرین نے اس بات کی شناخت کرلی ہے کہ غالب کونسی شراب پیتے تھے۔اسی طرح غالب کے ایک شعر دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے ۔آخر اس مرض کی دوا کیا ہے؟ کی منظرکشی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ غالب سکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے ڈاکٹر (ایلو پیتھ)حکیم(یونانی)اور وید(آیورو) کھڑے ہیں ۔