مغربی بنگال میں عازمین حج کی تعداد میں کمی آنے کو ایک بڑا حلقہ ریاست میں مسلمانوں کی معاشی بدحالی سے جوڑ رہا ہے جبکہ کچھ لوگوں کاکہنا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات کی وجہ سے صرف بنگال ہی نہیں بلکہ بہار ، جھاڑ کھنڈ اور آسام میں بھی عازمین حج کی تعداد میں کمی آئی ہے ۔
'بنگال سے عازمین حج کی تعداد میں نمایاں کمی' بنگال میں 27.7فیصد مسلم آباد ی کی وجہ سے بنگال کے حصے میں 17ہزار کوٹہ الاٹ منٹ کیا گیا ہے ۔
ایسے حج کمیٹی آف انڈی کے ذریعہ الاٹ کئے گئے کوٹا کبھی بھی پر نہیں ہوا ہے مگر گزشتہ چند سالوں سے عازمین حج کی تعداد میں کمی آرہی ہے ۔
2011میں بنگال سے 9722افراد حج پر گئے تھے جب کہ 2012میں اس تعداد میں اضافہ ہوکر 11651تک پہنچ گئی مگر 2013سے تعداد میں گھٹنے لگی ۔
2013میں 1011افراد حج پر گئے۔اور2020میں گھٹ کر اب 7574تک پہنچ گیا ہے۔یعنی کوٹے سے 9ہزار چار سو کم ۔
'بنگال سے عازمین حج کی تعداد میں نمایاں کمی' سی پی ایم رہنما ڈاکٹر فواد حلیم نے کہا کہ صرف 2020میں ہی عازمین حج کی تعداد میں کمی نہیں آئی ہے کہ جب کہ 2012کے بعد سے ہی بنگال میں عازمین حج کی تعداد میں کمی آرہی ہے جو یہ ثابت کرتی ہے ریاست میں مجموعی طور پر مسلمانوں کی معاشی مزید خراب ہوگئی ہے ۔
جبکہ 2012سے قبل تک بنگال میں عازمین حج کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہی ہوتا تھا مگر 2011میں ممتا بنرجی کے اقتدار میں آنے کے بعدسے ہی عازمین کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔
ریاستی حج کمیٹی کے سینئر آفیسر نے بتایا کہ اس کو صرف بنگال کے مسلمانوں کی معاشی حالت سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔بلکہ 2014کے بعد سے ہی صرف بنگال ہی نہیں بلکہ بہار،جھاڑ کھنڈ اور آسام میں بھی عازمین حج کی تعداد میں کمی آئی ہے ۔
انہوں نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ سبسیڈی ختم ہونے کا تعلق اس سے نہیں ہے ۔کیوںکہ سبسیڈی کا فائدہ عازمین کے بجائے ائیر انڈیا کو ملتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، ملک کی غیر یقینی صورت حال اور این آر سی ، این پی آر جیسے کئی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے عازمین حج کی تعداد میں کمی آئی ہے ۔
جب کہ ڈاکٹر فواد حلیم اس دلیل کورد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نوٹ بندی ، جی ایس ٹی اور دیگر وجوہات کا اثر دہلی، کیرالہ ، مہاراشٹر ،گجرات اور دیگر ریاستوں پر کیو ں نہیں پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں مسلمانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے وہاں مسلمانوں کی معاشی حالت کمزور ہوئی ہے۔آسام کے حالات واضح ہیں ،جب کہ بہار میں نتیش اور بی جے پی اتحاد نے مسلمانوں میں خوف کا ماحول پید ا کیا ہے۔
خیال رہے کہ 2016میں پراتیچی اور اسنیپ نے اپنی مشترکہ سروے رپورٹ میں کہا تھا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے دس سال بعدبھی بنگال کے مسلمانوں کی معاشی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
اس رپورٹ نے ممتا بنرجی کے ترقی کے تمام دعوئوں کو رد کرتے ہوئے کہاتھا کہ بنگال میں صرف ایک فیصد مسلم نوجوان پرائیوٹ کارپوریٹ کمپنیوں میں کام کرتے ہیں ۔جب کہ 47فیصد مسلم زرعی اور غیر زرعی مزدور ہیں ۔بنگال کے دیہی علاقوں میں آباد 80فیصد مسلمانوں کی آمدنی 5000ہزار روپے سے بھی کم ہے۔
اسی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 38.3فیصد مسلمانوں کی آمدنی 2500روپے سے بھی کم ہے۔اس کے علاوہ صرف مسلمانوں کی آمدنی 15ہزار یا پھر اس سے زاید ہے۔