مغربی بنگال کے مالدہ ضلع کے گاجل تھانہ علاقے میں وزیراعلیٰ ممتابنر جی نے ضلع انتظا میہ کے اعلیٰ افسران کے ساتھ میٹنگ کی اور ترقیاتی کاموں پر تبادلہ خیال کیا۔
ضلع انتظامیہ کے ساتھ اہم میٹنگ کے بعد وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے مقامی قبائلیوں کی اجتماعی شادی کی تقریب میں شرکت کی۔ خواتین کی ضد پر وزیراعلیٰ نے ان کے ساتھ قدم سے قدم ملایا۔
اجتماعی شادی کی تقریب میں وزیر اعلیٰ کی شرکت وزیراعلیٰ ممتابنرجی نیلی ساڑی میں تھیں اور قبائلی خواتین سے ملاقات کے بعد ان کے مطالبے پر رقص کیا۔
اس دوران وزیراعلیٰ نے کہاکہ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت چاہے جتنی بھی کوشش کرلے مغربی بنگال میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔
انہوں نے کہاکہ مغربی بنگال میں رہنےو الے متوا سماج، راج بنسی اور قبائلی سمیت تمام مذاہب کے لوگوں کو مکمل آزادی ہے ۔ تمام مذاہب کے لوگ یہاں مل جل کر رہتے ہیں۔
اجتماعی شادی کی تقریب میں وزیر اعلیٰ کی شرکت وزیر اعلیٰ نے کہاکہ لیکن چند افراد کو بنگال کی خوشحالی اور بھائی چارگی پسند نہیں ہے اس لئے وہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے نام پر لوگوں کو ڈرا دھمارہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ کسی کو بھی شہریت ترمیمی ایکٹ کے نام پر ڈرا نے اور دھمکانے والوں سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب میں زندہ ہوں بنگال کا ایک بھی شہری ملک بدر نہیں ہوگا۔
وزیر اعلیٰ نے کہاکہ بنگال کے لوگوں کو ملک بدر کرنے کے لئے پہلے میری لاش پر سے گزرنا ہوگا۔اس کے بعد ہی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
اجتماعی شادی کی تقریب میں وزیر اعلیٰ کی شرکت واضح رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں شہریت ترمیمی بل کو قانونی شکل دینے کے بعد سے ہی مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتابنرجی بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کے خلاف تحریک چلا رہی ہیں۔
ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتابنرجی کی ہدایت ریاست کے تمام اضلاع میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج وجلسے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے تمام ارکان اسمبلی کو ریاست کے 294 اسمبلی میں غیرمعائنہ مدت کے لئے نئے قانون کے خلاف ریلی کے انعقاد کا حکم دیا ہے۔
حکمراں جماعت ترنمول کا نگریس کے علاوہ بایاں محاذ کی تمام حلیف جماعت اور کانگریس کی جانب سے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف جلسہ و جلوس کاانعقاد کیا جارہا ہے۔
دہلی کے شاہین باغ کے طرز پر کولکاتا کے پارک سرکس میں گزشتہ دو مہینوں سے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف خواتین احتجاجی دھرنے میں بیٹھیں ہیں۔ احتجاج کرنے والی خواتین کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہیں۔