ایک مہینے قبل تک آل انڈیا مسلم مجلس اتحاد المسلمین کا مغربی بنگال بنگال کی انتخابی سیاست میں کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا تھا ۔ تاہم گزشتہ مہینے وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کے ذریعہ حیدرآباد کی سیاسی جماعت کی سخت تنقید کرنے اور بی جے پی کے اشارے پر سیکولر ووٹ کو تقسیم کرنے کا الزام عاید کیے جانے کے بعدسے ہی اے آئی ایم ایم بنگال کی سیاست میں چرچے میں آگئی ہے۔
گرچہ ہائی مدرسہ منجمنٹ کمیٹی کا انتخاب مقامی نوعیت کا ہے تاہم سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اسدالد ین اویسی نے مسلم اکثریتی ضلع شمالی دیناج پور میں واقع اس مدرسہ کی کمیٹی میں اپنا امیدوار دے کر اپنے مستقبل کے عزائم اور منصوبے کا اظہار کردیا ہے۔
ہیمت آباد پولس اسٹیشن کے تحت ووگرام ہائی مدرسہ منجمٹ کمیٹی کے انتخاب میں حیرت انگیز طور پر بی جے پی نے اپنا کوئی امیدوار نہیں دیا ہے۔بلکہ غیر اعلانیہ طور پر کانگریس اور سی پی ایم اتحاد کے امیدوار کی حمایت کی۔مقامی بی جے پی کا مطابق اس کا مقصد ترنمول کانگریس کو روکنا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی ضمنی انتخاب میں شمالی دیناج پور کے کالیا گنج کے اسمبلی حلقے میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔جب کہ لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی نے اس حلقے سے 40ہزار سے زیاد ہ ووٹوں کی سبقت حاصل کی تھی۔تاہم مقامی بی جے پی قیادت نے کانگریس اور لیفٹ اتحاد کی حمایت کی خبر کی تردید کی ہے۔بی جے پی کے مقامی رہنما آزادعلی نے کہا کہ این آر سی کے پروپیگنڈے کی وجہ سے بی جے پی یہاں پر تنظیمی طور پر کمزور ہوگئی ہے۔تاہم کانگریس اتحاد کی حمایت کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے گزشتہ مہینے مرشدآباد اور کوچ بہارمیں آل انڈیا اتحاد المسلین کی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ حیدرآباد کی ایک سیاسی جماعت مذہبی بنیاد پر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔اس جماعت کو سیکولر ووٹ کی تقسیم کیلئے بی جے پی کی حمایت حاصل ہے۔