مغربی بنگال میں کل 25,000ہزار تھلسیمیا کے مریض ہیں جنہیں مستقل طور پربلڈ کی ضرورت ہے۔لیکن لاک ڈاؤن کے سبب خون عطیہ کیمپ نہ ہونے کے سبب بلڈبینک میں خون کی زبردست قلت ہو گئی ہے۔
بلڈ بینکوں میں خون کی قلت تاپس سین گپتا کے 32سالہ بیٹا تھلسیمیا کے شکار ہیں،انہیں خون کی ضرورت ہے مگر بنگال کے بلڈ بینک کے پاس خون بالکل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوال زندگی کا ہے۔خون چڑھائے بغیر مریض کو زیادہ دنوں تک نہیں رکھا جاسکتا ہے مگر بلڈ بینک نے ہاتھ کھڑے کردئے ہیں۔جس طریقے سے عام لوگوں کو کھانے کی ضرورت ہے اسی طرح ہمیں خون کی ضرورت ہے۔اگر خون نہیں ملا تو مریض کا بچنا مشکل ہے۔
ڈاکٹر سومیا سنترا نے کہا کہ خون کی قلت کی وجہ سے بہت سے مریض اپنی زندگی ہارجائیں گے۔
ڈاکٹر سنتر نے کہا وہ خود بھی اس کے مریض ہیں نے کہا کہ اس وقت میرا ہومو گلوبین 7.5ہے۔اس کی وجہ سے مجھے فوری طور پر خون ٹرانسفر کرنے کی ضرورت ہے۔
کیوںکہ تیزی ہومو گلوبین میں گراوٹ آرہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہماری ضرورت پر توجہ نہیں دی گئی تو کورونا کے ساتھ ہم بھی ختم ہوجائیں گے۔
عطیہ خون کیمپ کا انعقاد مکمل طور پر اس لئے بند کردیا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے درمیان منعقد کئے جانے کی وجہ سے معاشرتی فاصلے کی پابندی لوگ ختم کردیں گے اور اس سے کورونا وائرس کے پھیلنے کا خدشہ ہوجائے گا۔اس کی وجہ سے انتظامیہ نے عطیہ کیمپ کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
پرائیوٹ بلڈ بینک کے سی ای او نے کہا کہ ہم ماہانہ6000یونٹ خون کا سپلائی کرتے ہیں مگر مارچ میں ہم صرف 400یونٹ کرسکے ہیں۔تھلسیمیا کے زیادہ ترمریض نہیں آسکے ہیں۔
ہمیں نہیں معلوم ہے کہ ان لوگوں نے کیسے انتظام کیا ہے۔تاہم یہ بہت ہی بڑا بحران ہے اور کچھ لوگ اپنے دوست اور رشتہ دار کیلئے خون دینا چاہتے ہیں مگر کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے وہ کسی بھی کلینک یا بلڈ بینک میں آنے سے ڈرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ تھلسیما کیلئے ہی نہیں بلکہ آپریشن اور ایمرجنسی مریض ایکسیڈنٹ وغیر ہ کیلئے خون کی ضرورت پڑتی ہے مگر بلڈ بینک مکمل طور پر خالی پڑے ہوئے ہیں۔