رقیہ بیگم کا شمار 19ویں صدی کی عبقری شخصیات میں ہوتا ہے۔ اس زمانے میں جب پورے ملک کے مسلمان تعلیمی میدان میں پسماندگی کے شکار تھے۔ کچھ لوگوں نے مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں ترقی کے لئے کام بھی کر رہے تھے۔
اس دور میں مسلم خواتین کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لئے اس غیر منقسم بنگال میں رقیہ بیگم نے مہم شروع کی۔ وہ خود ایسے گھرانے پیدا ہوئی جہاں عورتوں کی تعلیم کا کوئی خاص نظم نہیں تھا، لیکن انہوں نے اپنے بڑے بھائی کی حمایت سے باقی گھر والوں کے نظروں سے بچ کر اپنی تعلیمی پیاس بجھاتی رہیں۔
16 سال کی عمر میں ان کی شادی بھاگلپور کے ڈپٹی مجسٹریٹ سخاوت حسین سے ہو گئی۔ اس کے بعد وہ ان کے ساتھ کٹک چلی گئیں۔ جہاں ان کی ملاقات برہمو سماج کے سادھو چرن رائے کی اہلیہ ریبا رائے سے ہوئی اور ان کے ساتھ حقوق نسواں کی تحریک جڑ گئیں۔
رقیہ بیگم کے شوہر سخاوت حسین نے ان کی حمایت کی اور ان کو لکھنے کا مشورہ بھی دیا۔ 1905 میں سلطانہ کا خواب کے نام سے ان کی پہلی کتاب شائع ہوئی۔ شوہر کی موت کے بعد وہ پوری طرح سے سماجی خدمات میں لگ گئیں۔
خصوصی طور پر تعلیم نسواں کے لئے کام کرنے لگیں اور کلکتہ چلی آئیں۔ کلکتہ میں انہوں نے 16 مارچ 1911 کو لڑکیوں کے لئے سخاوت میموریل گرلز اسکول قائم کیا۔ 1916 میں انہوں نے مغربی بنگال کی مسلم کی تعلیم و ترقی کے لئے آل بنگا مسلم لیڈیز ایسو سی ایشن کی بنیاد ڈالی اور اس تنظیم نے غریب و ناداروں کے لئے کئی اسکول قائم کئے۔