ریاست مغربی بنگال کے ضلع مرشدآباد میں مبینہ طور پر شدت پسند تنظیم سے تعلقات کے الزام میں گزشتہ ستمبر میں چھ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پر مغربی بنگال کی کچھ ملی اور حقوق انسانی کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
حقوق انسانی آرگنائزیشن کے چھ ارکان پر مشتمل ایک وفد نے مرشدآباد کا دورہ کیا۔ اس دورے کا مقصد این آئی اے کے ذریعے 9 مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے حقائق کو سامنے لانا تھا۔
فیکٹ فائنڈنگ کے لیے مرشدآباد کا دورہ کرنے والی حقوق انسانی تنظیم ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کے رکن عبدالصمد کا کہنا ہے کہ 'تمام گرفتار ملزمین یومیہ مزدوری کرنے والے ہیں اور خط افلاس کی نیچے زندگی گزارنے والے ہیں۔ ہم نے اس گاؤں کا دورہ کیا۔ وہاں کے مقامی باشندوں سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ گرفتار کیے گئے نوجوان غیر سیاسی لوگ ہیں اور ان کو صرف روزگار زندگی کی فکر رہتی ہے۔'
انہوں نے بتایا کہ 'سفیان نام کے جس نوجوان کے گھر میں سرنگ ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ وہ بیت الخلاء کا حوض ہے جبکہ ایک سرنگ اور حوض میں کافی فرق ہوتا ہے۔ ایک اور نوجوان جو الیکٹریشین ہے، اس کے گھر الیکٹریشین کے پاس جو عام طور پر اوزار ہوتے ہیں وہ برآمد کیے گئے ہیں۔ اس کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ بم بنانے کی تیاری کر رہا تھا۔ میڈیا میں ان کو شدت پسند بتایا جا رہا ہے۔ اس طرح کی بے بنیاد باتوں پر ان کو شدت پسند ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔'
جماعت اسلامی حلقہ مغربی بنگال کے صدر مولانا عبدالرفیق نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہماری تنظیم نے مرشدآباد کے ان علاقوں کا دورہ کیا اور حقائق معلوم کرنے کی کوشش کی ہے جہاں سے نوجوانوں کی گرفتاری ہوئی ہے۔'