ریاست مغربی بنگال حکومت نے 'نئی تعلیمی پالیسی' کے تئیں سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستوں کی رائے اور ان کے مشورے کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی طرف سے بلائی گئی نئی تعلیمی پالیسی سے متعلق اجلاس میں حصہ لیتے ہوئے ریاستی وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی نے کہا کہ مرکزی حکومت نے یکطرفہ طور پر ایک تعلیمی پالیسی تشکیل دی ہے، جو وفاقی ڈھانچے کے منافی ہے۔
اس کانفرنس میں وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر تعلیم کے علاوہ مختلف ریاستوں کے گورنر اور یونیورسٹیوں کے وزرائے تعلیم موجود تھے۔
بنگال کی طرف سے وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی یکطرفہ بنائی گئی ہے۔ چٹرجی نے کہا کہ تعلیم جیسے مسئلے پر یکطرفہ طور پر فیصلہ لیا جانا افسوسناک ہے۔ یہ فیصلہ قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مرکز نے ریاست کی رائے کو اہمیت نہیں دی۔
نئی تعلیمی پالیسی پر بنگال حکومت نے متعدد اعتراضات پیش کیے ہیں۔ ان میں انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطحوں پر داخلہ، ایم فل کو برخاستگی بھی شامل ہے۔
پارتھو چٹرجی نے یہ بھی کہا کہ تمام شکایات ریاستی حکومت کی جانب سے تحریری طور پر مرکزی حکومت کو ارسال کی جائیں گی۔ تاہم کانفرنس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے نئی قومی تعلیمی پالیسی سے متعلق امیدوں کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی صرف مرکزی حکومت کا ایک اقدام نہیں، یہ پورے ملک کی پالیسی ہے۔ ویڈیو کانفرنس میں نریندر مودی نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی ملک کی معاشی اور معاشرتی ترقی میں بھی تبدیلی لائے گی۔ یہ تعلیمی پالیسی نہ صرف پڑھنے کی قسم کو بلکہ پورے ملک کی معاشی اور معاشرتی ترقی کی رفتار کو بھی ایک نئی سمت دے گی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی کو وقت کے تقاضوں کے مطابق کیا گیا ہے۔ ان کے بقول، اس تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے اس بات کا واضح اندازہ ہوگا کہ طلبا ان پر اضافی غیر ضروری بوجھ ڈالے بغیر مستقبل میں کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں۔
نریندر مودی نے مزید دعوی کیا کہ ’نئی تعلیمی پالیسی میں پورے ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سب کچھ موجود ہے۔ مغربی بنگال حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کا جائزہ لینے کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی بنائی تھی۔ اس کمیٹی نے نئی تعلیمی قومی پالیسی پر کئی اعتراضاف پیش کیے ہیں۔