کولکاتا:اس واقعہ میں سوپندیپ کے والد رام پرساد کنڈو نے پہلے ہی قتل کی شکایت درج کرائی ہے۔ اس شکایت کی بنیاد پر پولیس نے سوربھ چودھری نامی یونیورسٹی کے ایک سابق طالب علم کو بھی گرفتار کیا ہے۔ لیکن سوپندیپ کی موت کو دو دن گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک تمام سوالوں کے جواب نہیں ملے ہیں۔ بلکہ جوں جوں وقت آگے بڑھ رہا ہے، زیادہ سے زیادہ نئے سوالات جنم لے رہے ہیں۔
سوپن دیپ،جو بنگالی پڑھنے کے لیے ندیا ضلع سے جادوپور یونیورسٹی آیا تھا، بدھ کی رات یونیورسٹی ہاسٹل کے اے-2 بلاک کی تیسری منزل کی بالکونی سے گر کر ہلاک ہوگیا تھا۔ مبینہ طور پر ہاسٹل میں سینئر طالب علم اس پر تشدد کر رہے تھے۔ سوپندیپ ریگنگ کا شکار تھا۔ اس رات اس نے اپنی ماں کو فون کیا اور اپنے خوف کے بارے میں بتایا تھا۔ سوپندیپ نے جلدی سے آنے اور اسے ہاسٹل سے بچانے کی درخواست کی تھی۔ اس کے فوراً بعد خبر آئی کہ وہ بالکونی سے گر گیا ہے۔ سوپندیپ کو بچایا گیا اور قریبی پرائیوٹ اسپتال لے جایا گیا۔ مگرجمعرات کی صبح ان کی موت ہوگئی۔ اس واقعہ میں جادو پور تھانے کی پولیس نے یونیورسٹی کے طلباء، پروفیسروں اور ہاسٹل کے رہائشیوں سے پوچھ تاچھ کی۔ لال بازار انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ کے افسران نے بھی تحقیقات شروع کر دی ہے۔ سنیچر کو بھی سوربھ سمیت کئی طلباء اور سابق طلباء سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ اب تک مجموعی طور پر چار اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں جن کے جوابات نہیں مل سکے ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق سوپندیپ نے بدھ کی رات کوئی کپڑے نہیں پہنے ہوئے تھے۔ اس نے صرف ایک تولیہ پہن رکھا تھا۔ بہت سے لوگوں نے دعویٰ کیا کہ گرنے کے بعد ان کے جسم پر تولیہ بھی نہیں تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس رات سوپندیپ کے جسم پر کپڑے کیوں نہیں تھے؟ اس نے تولیہ کیوں پہن رکھا تھا؟ اس سے قبل پولس کی ابتدائی جانچ کے دوران سامنے آنے والی معلومات میں کہا گیا تھا کہ سوپندیپ دن رات بار بار بیت الخلا جا رہا تھا۔ اس لیے اس نے تولیہ پہن رکھا تھا۔ ہاسٹل کے کچھ طلباء نے اس کی اطلاع پولیس کو دی تھی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ کیا سوپندیپ نے ریگنگ کی وجہ سے کپڑے نہیں پہن رکھے ہیں؟ کیا اسے کپڑے اتارنے پر مجبور کیا گیا؟