اردو

urdu

ETV Bharat / state

Major Setback For TMC: اقلیتی اکثریت حلقے ساگردیگھی میں شکست ترنمول کانگریس کیلئے مایوس کن - مغربی بنگال کے مختلف اضلاع میں گزشتہ چند مہینوں

ساگر دیگھی میں جیت کے ساتھ ہی بائیں بازو کانگریس اتحاد نے قانون ساز اسمبلی میں اپنا کھاتہ کھول لیا ہے۔ جمعرات کی صبح ای وی ایم کے کھلنے کے بعد ساگردیگھی اسمبلی ضمنی انتخاب میں کانگریس کے امیدوار نے لیڈ لینا شروع کردیا تھا۔آخر کار بائرن بسواس، بائیں کانگریس اتحاد کے امیدوار، ساگردیگھی اسمبلی ضمنی انتخاب میں 25,000 سے زیادہ ووٹوں سے جیت گئے۔

اقلیتی اکثریت حلقے ساگردیگھی میں شکست ترنمول کانگریس کیلئے مایوس کن
اقلیتی اکثریت حلقے ساگردیگھی میں شکست ترنمول کانگریس کیلئے مایوس کن

By

Published : Mar 2, 2023, 8:20 PM IST

کولکاتا:مغربی بنگال کے مختلف اضلاع میں گزشتہ چند مہینوں کے دوران یکے بعد دیگرے کوآپریٹو انتخابات کے نتائج نے ثابت کیا ہے کہ بائیں بازو کی طاقت واپس آرہی ہے۔مرشدآباد کے ساگردیگھی میں تو کانگریس کی جیت نے ترنمو ل کانگریس کیلئے پریشانی کا سبب بن گیا ہے۔

ترنمول کانگریس کے امیدوار سبرت ساہا نے 2021 کے اسمبلی انتخابات میں ساگردیگھی سے 50,000 سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ ووٹوں کی گنتی کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ کانگریس امیدوار بائرن بسواس نے ترنمول کے امیدوار دیباشیس بنرجی سے 25ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ بائیں حمایت یافتہ کانگریس امیدوار کو 44 فیصد ووٹ ملے ترنمول کے امیدواروں کو وہاں 39 فیصد ووٹ ملے

پنچایتی انتخابات سے پہلے ساگردیگھی میں شکست بلاشبہ ترنمول قیادت میں تشویش پیدا کردیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ صرف بائیں بازو کانگریس اتحاد کی کامیابی نہیں ہے۔ اقلیتی ووٹ بینک کا ٹوٹنا ترنمول کانگریس کیلئے پریشانی کا سبب ہے۔

بائیں بازو-کانگریس اتحاد کی یہ کامیابی پنچایتی انتخابات سے پہلے دونوں جماعتوں کے کارکنوں کے حوصلے کو بلند کرے گی۔ پنچایتوں میں غیر تحریری اتحاد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بائیں بازو کے کانگریس اتحاد کی کامیابی اس لیے اپوزیشن کو مزید حوصلہ افزائی کرے گی کہ وہ پنچایت انتخابات سے قبل حکمران جماعت کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو جائیں۔ پردیش کانگریس کے صدر ادھیر رنجن چودھری نے بھی کہا کہ ساگردیگھی کی جیت پورے بنگال میں محرک کا کام کرے گی۔

دوسری بات یہ کہ اقلیتی ووٹ بینک اب تک ترنمول کی بڑی طاقت رہا ہے۔ 2021 کے اسمبلی انتخابات میں بھی، مالدہ، مرشدآباد جیسے کانگریس کے مضبوط گڑھوں میں ترنمول کی اجارہ داری کی کامیابی اس کی بڑی اقلیتی حمایت کی وجہ سے تھی۔ ساگردیگھی اسمبلی حلقہ میں بھی تقریباً 68 فیصد اقلیتی ووٹ ہیں۔ ضمنی انتخابات کے نتائج کو دیکھ کر یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بائیں بازو کانگریس اتحاد اس اقلیتی ووٹ میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب رہی ہے۔ اگر یہ رجحان پنچایتی انتخابات اور اس کے بعد بھی جاری رہا تو 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں ترنمول کانگریس کوشدید نقصان پہنچے گا۔

تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ شکست کی تیسری وجہ یہ ہے کہ ساگردیگھی انتخابی شکست کے لیے پارٹی کی اندرونی لڑائی ذمہ دار ہے۔ ضمنی انتخاب کے آغاز سے ہی ساگردیگھی کے امیدوار کو لے کر ترنمول کے ایک طبقے کی طرف سے ناراضگی تھی۔ یہ الزام لگایا گیا تھا کہ دیباشیس بھٹاچاریہ نے 2021 کے انتخابات میں بی جے پی کی مدد کی تھی۔ ضمنی انتخاب میں سابق وزیر سبرت ساہا کے حامیوں نے انہیں گھیر لیا تھا۔

ایس ایس سی، پرائمری تقرریوں میں بدعنوانی، پارتھا چٹوپادھیائے، انوبرتا منڈل، مانک بھٹاچاریہ،حکمران پارٹی کے سرکردہ لیڈروں کی گرفتاری کے بعد ساگردیگھی میں پہلا بڑا الیکشن تھا۔

یہ بھی پڑھیں:Naushad Siddiqui Gets Bailکلکتہ ہائی کورٹ میں رکن اسمبلی نوشاد صدیقی کی ضمانت منظور

صرف ترنمول کانگیرس ہی نہیں، ساگردیگھی ضمنی انتخاب کا نتیجہ بی جے پی کے لیے بھی بڑا جھٹکا ہے۔ 2021 میں بھی اس ساگردیگھی میں بی جے پی 24 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھی۔اس کی بنیادی وجہ ہندو ووٹوں کا پولرائزیشن ہے۔ اس اعداد و شمار میں بی جے پی کو 2021 میں کامیابی ملی لیکن اس بار ساگردیگھی میں بی جے پی کا ووٹ شیئر 12 فیصد تک گر گیا ہے۔ بی جے پی لیڈران کیلئے پنچایتی انتخابات سے قبل یہ ایک بڑا جھٹکا ہے اور یہ سوال ان کے سامنے ہے کہ ووٹوں کی تعداد آدھی کیوں رہ گئی ہے۔ کیونکہ 2021 کے بعد بی جے پی کے ممبران اسمبلی ایک کے بعد ایک پارٹی چھوڑکر جارہے ہیں۔

یواین آئی

ABOUT THE AUTHOR

...view details