کولکاتا:مغربی بنگال کے مختلف اضلاع میں گزشتہ چند مہینوں کے دوران یکے بعد دیگرے کوآپریٹو انتخابات کے نتائج نے ثابت کیا ہے کہ بائیں بازو کی طاقت واپس آرہی ہے۔مرشدآباد کے ساگردیگھی میں تو کانگریس کی جیت نے ترنمو ل کانگریس کیلئے پریشانی کا سبب بن گیا ہے۔
ترنمول کانگریس کے امیدوار سبرت ساہا نے 2021 کے اسمبلی انتخابات میں ساگردیگھی سے 50,000 سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ ووٹوں کی گنتی کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ کانگریس امیدوار بائرن بسواس نے ترنمول کے امیدوار دیباشیس بنرجی سے 25ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ بائیں حمایت یافتہ کانگریس امیدوار کو 44 فیصد ووٹ ملے ترنمول کے امیدواروں کو وہاں 39 فیصد ووٹ ملے
پنچایتی انتخابات سے پہلے ساگردیگھی میں شکست بلاشبہ ترنمول قیادت میں تشویش پیدا کردیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ صرف بائیں بازو کانگریس اتحاد کی کامیابی نہیں ہے۔ اقلیتی ووٹ بینک کا ٹوٹنا ترنمول کانگریس کیلئے پریشانی کا سبب ہے۔
بائیں بازو-کانگریس اتحاد کی یہ کامیابی پنچایتی انتخابات سے پہلے دونوں جماعتوں کے کارکنوں کے حوصلے کو بلند کرے گی۔ پنچایتوں میں غیر تحریری اتحاد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بائیں بازو کے کانگریس اتحاد کی کامیابی اس لیے اپوزیشن کو مزید حوصلہ افزائی کرے گی کہ وہ پنچایت انتخابات سے قبل حکمران جماعت کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو جائیں۔ پردیش کانگریس کے صدر ادھیر رنجن چودھری نے بھی کہا کہ ساگردیگھی کی جیت پورے بنگال میں محرک کا کام کرے گی۔
دوسری بات یہ کہ اقلیتی ووٹ بینک اب تک ترنمول کی بڑی طاقت رہا ہے۔ 2021 کے اسمبلی انتخابات میں بھی، مالدہ، مرشدآباد جیسے کانگریس کے مضبوط گڑھوں میں ترنمول کی اجارہ داری کی کامیابی اس کی بڑی اقلیتی حمایت کی وجہ سے تھی۔ ساگردیگھی اسمبلی حلقہ میں بھی تقریباً 68 فیصد اقلیتی ووٹ ہیں۔ ضمنی انتخابات کے نتائج کو دیکھ کر یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بائیں بازو کانگریس اتحاد اس اقلیتی ووٹ میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب رہی ہے۔ اگر یہ رجحان پنچایتی انتخابات اور اس کے بعد بھی جاری رہا تو 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں ترنمول کانگریس کوشدید نقصان پہنچے گا۔