کولکاتا:چند ماہ قبل پنچایات انتخابات میں آئی ایس ایف ریاست میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھری ہے۔بھانگوڑ سے رکن اسمبلی نوشاد صدیقی کی قیادت میں جنوبی 24 پرگنہ کے اس علاقے میں ہی نہیںبلکہ دوسرے اضلاع کے کچھ اور اقلیتی اکثریتی علاقوں میں بھی آئی ایس ایف نے حکمراں جماعت ترنمول کانگریس کو زبردست ٹکر دی ہے۔ ترنمول کانگریس نے نوشاد صدیقی کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا اس کی وجہ سے ان کی شہرت مزید بڑھ گئی اور وہ ترنمول کانگریس مخالف اور اقلیت نواز لیڈر کے طور پر ابھرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ان حالات میں نوشاد صدیقی نے ابھیشیک بنرجی کے خلاف انتخاب لڑنے کا اعلان کرکے مقابلہ کو دلچسپ بنادیا ہے۔کیوں کہ اس حلقے میں مسلم ووٹروں کی تعداد 30فیصد سے زائد ہے۔ سیاسی کیمپ کی اکثریت کی رائے ہے کہ اگر بائیں بازو اور کانگریس نوشاد صدیقی حمایت کرتے ہیں تو مقابلہ سخت ہوجائے گا۔
اسی کے پیش نظر سی پی ایم کے ریاستی سکریٹری محمد سلیم اور ریاستی کانگریس صدر ادھیر چودھری نے ابتدائی طور پر نوشاد کی حمایت کرنے کا اشارہ دیا تھا۔مگر سوال یہ ہے کہ ابھی تک سیٹوں کی تقسیم کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے ایسے میں نوشاد صدیقی یک طرفہ انتخاب لڑنے کا اعلان کیسے کرسکتے ہیں ۔سی پی آئی اس ہفتے اپنے اتحادیوں آئی ایس ایف سمیت دیگر پارٹیوں سے سیٹوں کی تقسیم پر بات چیت کرنے والی ہے ۔
نوشاد نے اس وقت تک انتظار نہیں کیا۔ اس کے علاوہ بائیں بازو کے کیمپ کے اندر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں، آئی ایس ایف کے ساتھ اتحاد کے بعد اقلیتی عوام میں سی پی ایم کا اپنا اثر مزید کم ہوگیا ہے۔ آئی ایس ایف نے پنچایتی انتخابات میں بائیں بازو کی اکثریت چھین لی ہے۔ اس کے بعد، اگر نوشاد ڈائمنڈ ہاربر میں ابھیشیک کے خلاف لڑتے ہیں، تو کیا مستقبل میں سی پی ایم اور بائیں بازو کو مزید نقصان نہیں پہنچے گا؟
ذرائع کے مطابق سی پی ایم کی ریاستی قیادت کا ایک گروپ اس مسئلے پر نوشاد صدیقی سے بات کرچکا ہے۔نوشاد صدیقی اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کو لے کر اپنے تحفظ کا اظہار کر چکے ہیں کہ اس اتحاد میں ترنمول کانگریس شامل ہے اور وہ ترنمو ل گانگریس کے ساتھ کسی بھی قسم کا اتحاد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔سی پی آئی ایم کے ایک گروپ کا ماننا ہے کہ نوشاد صدیقی کے اس غیرلچکدرانہ رویے سے غلط تاثر قائم ہورہا ہے ۔ سی پی ایم کے لیڈروں کو لگتا ہے کہ بنگال میں’انڈیا‘ اتحاد کام نہیں کرے گا مگر قومی سطح پر یہ اتحاد برقرار رہے گا۔ان کے مطابق نوشاد کو اپنے بولنے کے انداز میں کچھ تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔