بنگال کے آخری نواب سراج الدولہ کو سنہ 1757 میں پلاسی کے جنگ میں انگریزی فوج کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔اس جنگ نے ہندوستان کی تاریخ بدل کر رکھ دی اور انگریزوں کے لئے ہندوستان پر حکومت کرنے کا راستہ صاف کردیا تھا۔جنگ میں شکست کے بعد بنگال کے آخری نواب سراج الدولہ کو اپنی جان بچانے کے لئے مرشدآباد چھوڑنا پڑا تھا۔
سراج الدولہ جنگ ہارنے کے بعد پٹنہ جانا چاہتے تھےلیکن میر جعفر کے لوگوں نے انہیں راستے میں پکڑنے کی کوشش کی۔لیکن اپنی گرفتاری سے قبل سراج الدولہ اپنی اہلیہ لطف انشاء اور چند وفادار ساتھیوں کے ساتھ میر جعفر کے لوگوں سے آنکھ بچاکر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔
مرشدآباد سے نکل کر وہ شمالی 24 پرگنہ کے نواب گنج پہنچے تھے۔سراج الدولہ فرانسیسی کالونی چندن نگر جانا چاہتے تھے تاکہ وہ فرانسیسی گورنر جوسیف فرانکوئس ڈوپلیکس سے ملاقات کرسکے۔نواب گنج علاقے میں موجود کنگالی گھاٹ ہی چندن نگر جانے کا واحد راستہ تھا۔نواب گنج کا یہ علاقہ موجودہ دور میں گارولیا کہلاتا ہے، جو بیرکپور کمشنریٹ کا علاقہ ہے۔اس زمانے میں چندن نگر پر فرانسیسیوں کا قبصہ تھا۔
چندن نگر جانے کے لئے سراج الدولہ نے کنگالی گھاٹ کا استعمال کیا تھا۔اسی وجہ سے آج بھی اس گھاٹ کو تاریخی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ یہ واحد فیری گھاٹ ہے جو آج بھی ذاتی ملکیت ہے۔اس گھاٹ کے متعلق یہ بات عام ہے کہ اس گھاٹ سے بنگال کے آخری نواب سراج الدولہ میر جعفر اور انگریزوں سے جان بچاتے ہوئے فرار ہوئے تھے۔
کنگالی گھاٹ کے ایک جانب شمالی 24 پرگنہ اور دوسری جانب ہگلی ضلع یے۔اس کے متعلق ایک دلچسپ واقعہ آج بھی دریا کے دونوں جانب کے لوگوں میں عام ہے۔اس زمانے میں چندن نگر بنگال کا ایک اہم تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا۔کنگالی گھاٹ کے اس پار آج بھدریشور میونسپل کا تیلنی پاڑہ علاقہ ہے جہاں سے کچھ دوری پر چندن نگر واقع ہے۔
سراج الدولہ جب اپنے چند لوگوں کے ہمراہ کنگالی گھاٹ پہنچے تو اس وقت وہاں ایک پٹواری گوکل چند پاٹنی سے دریا پار کرانے کی درخواست کی، یہ پٹواری سراج الدولہ کو پہچان نہیں پایا، کیونکہ انہوں نے اپنا بھیش بدلا ہوا تھا، تاکہ کوئی انہیں پہچان نہ سکے ۔لیکن کہا جاتا ہے کہ سراج الدولہ کے جوتے دیکھ کر اس پٹواری کو یہ گمان ہوگیا تھا کہ یہ کسی معمولی آدمی کے جوتے نہیں ہوسکتے ہیں۔جس کے بعد سراج الدولہ نے اس پٹواری کو مدد کرنے کے عوض انعام دینے کا وعدہ کیا۔اس وقت سراج الدولہ کے پاس قیمتی زیوارات تھے۔جس کے بعد پٹواری گوکل چند پاٹنی نے ان کے ساتھیوں کے ہمراہ دریا پار کرا کر ان کی جان بچانے میں مدد کی اور ایک رات کے لئے سراج الدولہ کو اس پٹواری نے اپنے مکان موہنی کوٹھی، جو آج بھی موجود ہے، میں پناہ دی تھی۔
سراج الدولہ نے اس احسان کے بدلے جب پٹواری سے کچھ انعام طلب کرنے کی بات کہی اور بدلے میں جب اسے قیمتی زیورات دینا چاہا، تو پٹواری نے کہا کہ مجھے کوئی ایسی چیز دیں جس سے میری آنے والی نسلیں استفادہ حاصل کر سکیں۔سراج الدولہ نے اسی وقت ایک وصیت لکھی اور کنگالی گھاٹ کی ملکیت ہمیشہ کے لئے انعام کے طور پر اس پٹواری کو دے دی۔آج ڈھائی سو سال بعد بھی کنگالی گھاٹ اسی پٹواری کے خاندان کی ذاتی ملکیت ہے۔