کولکاتا: ہائی کورٹ کے جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے نے اس معاملے کو ریاست کے چیف سکریٹری کے ذریعے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے نوٹس میں لانے کی بھی ہدایت دی ۔انہوں نے کہا کہ ریاستی پولس سی بی آئی کے افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتی ہے ۔ بدعنوانی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ جج نے علی پور کی خصوصی سی بی آئی عدالت کے ارپن چٹوپادھیائے کو 4 اکتوبر تک ٹرانسفر کرنے کا بھی حکم دیا۔
جسٹس گنگوپادھیائے نے 19 ستمبر کو سی بی آئی کی خصوصی تفتیشی ٹیم کے سربراہ کو عدالت میں طلب کیا تھا، جس میں سی بی آئی کی جانچ کی سست رفتاری پر سخت تنقید کی گئی تھی ۔ایس آئی ٹی کے سربراہ اشون سے جج نے سوال کیا کہ کیا جانچ میں کسی بھی قسم کی روکاوٹ کا سامنا ہے؟۔اپنے جواب میں اشون نے دعویٰ کیا کہ بھرتی بدعنوانی کے معاملے میں جیل میں بند کنتل گھوش کی شکایت کے پیش نظر سی بی آئی کے افسران کو پولیس ہراسانی کا سامنا ہے۔ اس کے پیش نظر جسٹس گنگوپادھیائے نے کہا کہ ریاست اور کلکتہ پولیس نے امن و امان کی صورتحال کو موثر طریقے سے کنٹرول کیا ہے۔ وہ ان کی صلاحیتوں کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ لیکن جہاں عدالت کے حکم کے تحت تفتیش جاری ہے، وہاں پولس کو کسی بھی قسم کی مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔انہوں نے کلکتہ پولیس اور ریاستی پولیس کو ہدایت دی کہ وہ سیٹ کے کسی افسر کو مزید ہراساں نہیں کر سکتی ہے۔ جسٹس گنگوپادھیائے نے یہ بھی کہا کہ اگر عدالت کے اس حکم کی تعمیل نہیں کی گئی تو پولیس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ریاست کے چیف سکریٹری کے ذریعے وزیر اعلیٰ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ پولیس کو ای ڈی اور سی بی آئیکے اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنی چاہیے‘‘۔
علی پور کی خصوصی سی بی آئی عدالت کے جج چٹوپادھیائے نے کنتل کی شکایت کی بنیاد پر سی بی آئی کے خلاف پولیس جانچ کا حکم دیا تھا۔ اشون شینوی کی عدالت میں مزید شکایت یہ تھی کہ چاروں افراد نے علی پور کی عدالت میں اعتراف کیا کہ انہوں نے پیسے دے کر نوکری حاصل کی۔ سی بی آئی ان چار لوگوں کو اپنی تحویل میں لے کر پوچھ گچھ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن جج چٹرجی نے چاروں کو جیل کی تحویل میں بھیج دیا۔