خیال رہے کہ 23 دسمبر کو جب بی جے پی کے کارگزار صدر جے پی نڈا کلکتہ میں شہریت ترمیمی ایکٹ کی حمایت میں ریلی کررہے تھے اس وقت بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ چندر کمار بوس شہریت ترمیمی ایکٹ میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیے جانے پر تنقید کررہے تھے۔
ایک بار پھر انہوں نے ایک انٹریو میں کہا ہے کہ”نیتاجی سبھاش چندر بوس نوجوانوں کے لیڈر تھے اور وہ ہمیشہ ہندوستانی نوجوانوں کی حمایت کی ہے۔جب و ہ پریڈنسی کالج میں تھے اس وقت بھی اور جب وہ کیمبرج یونیورسٹی میں تھے تو اس وقت وہ اسٹوڈننس لیڈر تھے اور انہوں نے نوجوانوں کو ہندوستان کی تحریک آزادی میں حصہ لینے کیلئے حوصلہ دیا تھا اس لیے فطری بات ہے کہ اگر آج نیتاجی زندہ ہوتے تو وہ ملک کے نوجوانوں کے ساتھ ہوتے۔
چندر کمار بوس سے جب یہ سوال کیا گیا کہ وہ این آر سی اور سی اے اے کے خلاف اپنے موقف سے پارٹی اعلیٰ قیادت بالخصوص وزیرا عظم نریندر مودی اور امیت شاہ کو بتایا تھا کہ جب کہ یہ دونوں بی جے پی کے انتخابی منشور کا حصہ تھا۔
بوس نے کہا کہ میری ذمہ داری ہے کہ ہندوستان کیلئے جو اچھا ہے اس سے مطلع کیا جائے۔اگر پارٹی میری باتوں پر اتفاق نہیں کرتی ہے تو مجھے اپنے اگلے اقدامات پر غور کرنا چاہیے۔میں قبل از وقت کچھ کہنے کے حق میں نہیں ہوں جب میں پل پر پہنچوں گا ضرور اس کو عبور کروں گا۔
ایک سوال کے جواب میں چندر کمار بوس نے کہا کہ اگر نیتاجی 1945کے بعد ہندوستان واپس آتے تو بھارت تقسیم ہی نہیں ہوتا اور ہم ایک غیر منقسم بھارت کے شہری ہوتے۔اگر نیتاجی زندہ ہوتے تو اس طرح کے مسائل پیدا ہی نہیں ہوتے۔مگر وہ بھارت واپس ہی نہیں آسکے اور اس کی قیمت ملک کو چکانی پڑی۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں بات کرنے کیلئے میں نے وزیرا عظم اور وزیر داخلہ سے جنوری کے پہلے ہفتے میں وقت میں مانگا ہے اور مجھے امید ہے کہ مجھے ملاقات کا وقت ملے اور میں پھر ان کے سامنے شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی سے متعلق اپنی بات رکھوں گا۔
بوس نے کہا کہ میں حکومت اور پارٹی کے خلاف نہیں ہوں بلکہ میں ہندوستان کے عوام کے ساتھ ہوں اور عوام کی آواز کو ان کے سامنے بلند کروں گا۔انہوں نے کہا کہ میں بنیادی طور پر شہریت ترمیمی ایکٹ کے حق میں ہوں،مگر اس قانون کو مذہب کی بنیاد پر پاس نہیں ہونا چاہیے۔