ہاوڑہ:مغربی بنگال کے ضلع ہاوڑہ اور اور ہگلی ضلع کے رشرا میں ہوئے تشدد کے معاملات میں اب پولس انتظامیہ کی لاپرواہی پر سوال اٹھ رہے ہیں ۔ ہوڑہ میں گزشتہ کئی سالوں سے رام نومی کے موقع پر تشدد کے واقعات ہوتے ہیں تاہم اس مرتبہ بھی اس کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا ۔اس کے باوجود بڑی تعداد میں پولس فورسیس کی تعیناتی نہیں کی گئی تھی۔
دوسری جانب ہگلی کے رشرا میں ہوئے تشدد سے متعلق بھی کئی سوالات کھڑے ہورہے ہیں کہ رام نومی کے دودن بعد جلوس نکالنے کی اجازت کیوں دی گئی جبکہ ہاوڑہ میں تشدد کے واقعات ہوچکے تھے۔ دوسری بات یہ سامنے آئی ہے کہ اتوار کو دوپہر ایک بجے جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی اور امن کمیٹی کی میٹنگ میں طے کیا گیا تھا کہ جلوس میں ہتھیار لے کر کوئی بھی شریک نہیں ہوگا۔ اس کے باوجود جلوس نکالنے میں چار گھنٹے کی تاخیر کی گئی ۔بڑی تعداد میں باہری افراد کو لایا گیا تھا۔
رمضان کے مہینے میں مغرف کی نماز کے وقت بھیڑ ہوتی ہے۔ جلوس اسی درمیان رشرا کی مسجد کے پاس پہنچا جب روزہ دار افطار کرکے نماز کےلئے مسجد آرہے تھے۔ خیال رہے کہ یہیں پر تشدد کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ چار دن گزر جانے کے باوجود پولس انتظامیہ یہ معلوم نہیں کرسکی ہے کہ چار گھنٹے کی تاخیر کی کوئی اتفاق تھا یا پھر یہ جان بوجھ کر مغرب کی نماز کے وقت مسجد کے سامنے نعرے بازی کرنے کا منصوبہ تھا۔ رشرا کے مقامی ہندو بھی بتاتے ہیں کہ ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہے کہ رام نومی کا جلوس نکالنے میں دو دن کی تاخیر کیوں کی گئی اور مقررہ وقت پر جلوس کیوں نہیں نکالا گیا ۔