کولکاتا:مغربی بنگال کے گورنر سی وی آنند بوس نے جب راج بھون میں عہدہ سنبھالا تھا تو ابتدائی دنوں میں گورنر اور حکومت کے درمیان کے بہتر تعلقات تھے۔ یہ اشارے مل رہے تھے کہ گورنر سی وی آنند بوس اپنے پیش رو گورنر جگدیپ دھنکر جو اس وقت نائب صدر ہیں کے برخلاف ریاستی حکومت کے ساتھ ٹکرائو کی راہ اختیار کرنے کے بجائے مفاہمت اور تال میل کے ساتھ کام کریں گےمگر بی جے پی کی تنقید اور بنگال بی جے پی لیڈروں کے سخت بیانات کے بعد گورنر نے اپنے پرنسپل سیکریٹری کے تبادلہ کا حکم دیا اس کے بعد سے ہی راج بھون اور ریاستی حکومت کے درمیان تعلقات تلخ ہوتے چلے ہیں ۔پنچایت انتخابات اور وائس چانسلر وں کی تقرری کے سوا ل پر گورنر اور حکومت دوالگ الگ سمت میں چلنے لگے۔وائس چانسلروں کی تقرری کا معاملہ سپریم کورٹ چلاگیا جہاں عدالت نے گورنر کو عارضی وائس چانسلروں کی تقرری پرروک لگادی۔
حکمراں جماعت نے گورنر سی وی آنند بوس کو جگدیپ دھنکر سے بھی خراب گورنر قرار دیاتھا مگر آج گورنر نے اس طرح کا بیان دے کر سب کو حیران کردیا ہے۔منگل کو گورنر بوس نے کہاکہ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ حکومت نے تشدد یا بدعنوانی کی ہے۔سیاسی جماعتوں کو تشدد سے جوڑا جا سکتا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تشدد یا بدعنوانی ہوگی تو حکومت کارروائی کرے گی۔
اس کے نتیجے میں سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ ایک سال بعد کیا گورنر بوس ریاستی حکومت کو مفاہمت کا پیغام دے رہے ہیں؟ اس نے ممتا اور اس کی حکمرانی والی ریاست کے بارے میں بالکل کیا کہا؟