مغربی بنگال کے شمالی 24 پرگنہ کے مسلم اکثریتی مزدور کش علاقہ کمرہٹی کی سرزمین پر پیدا ہونے والے ممتاز انور شاعری و اردو ادب کے شعبے میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ لیکن اس مقام کو حاصل کرنے سے پہلے ممتاز انور کو زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ درمیانی طبقہ کے ایک خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
ممتاز انور سے خصوصی گفتگو
محنت اور مشقت کے بعد ممتاز انور آج شاعری کی دنیا میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں، انہوں نے نہ صرف اپنی شاعری سے مغربی بنگال کے عوام کا دل جیتا ہے بلکہ پورے ملک میں اپنی شناخت بنائی ہے۔
ایک شاعر: ممتاز انور سے خصوصی گفتگو
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شاعر و ادیب اور ہائی اسکول کے ٹیچر ممتاز انور نے سخت جدوجہد کے بعد ملنے والی کامیابی پر تبادلۂ خیال کیا۔
بی اے آنرس (اردو) اور ایم اے کے بعد ڈبل بی ایڈ کرنے کے بعد ممتاز انور نے شمالی 24 پرگنہ کے گیارولیا ٹاؤن میں واقع گیارولیا مل ہائی اسکول (ایچ ایس ) میں بطور ٹیچر ملازمت حاصل کی۔ ممتاز انور کو اسکول کے زمانے سے ہی شاعری اور لکھنے پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ 80 کی دہائی میں شاعری کی دنیا میں قدم رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس دنیا کا ایک حصہ بن گئے۔
شروعاتی دنوں میں اپنی شناخت بنانے کے لیے جدوجہد کرنے والے ممتاز انور کو مینار ادب کے لقب سے سرفراز شاعر قیصر شمیم انہیں استاد کے طور پر ملے۔
مزید پڑھیں:ایک شاعر: شاعر و ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر انیس انصاری کے ساتھ خاص بات چیت
ممتاز انور نے اپنا مخلصانہ ادبی سفر اپنے استاد گرامی قیصر شمیم کی سریرستی میں شروع کیا۔ ممتاز انور کی کل 10 کتابیں منظر عام پر اب تک آچکی ہیں۔ سنہ 1997 میں ان کی سب سے پہلی کتاب 'تازہ ہوا' کے نام سے آئی۔ اس کے بعد سنہ 2005 میں ان کی دوسری کتاب 'لکڑی کا گھوڑا' آئی، جو ادب اطفال پر ہے۔ سنہ 2012 میں 'دھوپ کا رنگ' کے نام سے کتاب شائع ہوئی، اس کتاب پر انہیں بہار اردو اکیڈمی کی جانب سے 'پرویز شاہدی' کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ سنہ 2014 میں 'یا نبی سلام علیک' کے نام سے نعت پاک کا ایک مجموعہ بھی منظر عام پر آیا۔ پھر سنہ 2017 میں آوارہ موسم کے نام سے کتاب شائع ہوئی، جو غزلیات پر مشتمل ہے۔
گزشتہ دہائیوں میں رباعی کی طرف شعراء کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث نہ صرف رباعیات کے مجموعے بلکہ دیوان بھی شائع ہوئے ہیں۔ موجودہ دور میں قطعات کی طرف شعراء کی توجہ مرکوز ہوئی ہے اور اسی کے پیش نظر ممتاز انور کا دیوان بارگاہ رسالت بھی منظر عام پر آیا۔
شاعر و ادیب ممتاز انور نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والدین انہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ان کے خوابوں کو تکمیل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائی دور میں ہی ان کی چھوٹی چھوٹی کہانیاں مغربی بنگال کے مختلف اخبارات، رسالے اور جریدے میں شائع ہونے لگی تھی۔ اس سے انہیں حوصلہ ملا اور لکھنے پڑھنے کا شوق بڑھا۔
گیارولیا مل ہائی اسکول (ایچ ایس) کے شعبہ اردو کے ہیڈ ممتاز انور کا کہنا ہے کہ ایمانداری کے ساتھ محنت کرنے سے ہی زندگی میں کامیابی ملتی ہے اور اس کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔