کولکاتا:مغربی بنگال میں سرکاری ملازمین مرکزی حکومت کے طرز پر ڈی اے کا مطالبہ کرتے ہوئے وہ طویل عرصے سے احتجاج کر رہے ہیں۔ جوائنٹ منچ کے لیڈران اس مطالبے کے حق میں ملک کے صدر اور مرکزی وزراء کو میمورنڈم سونپیں گے۔ ذرائع کے مطابق صدر، نائب صدر، وزراء ملاقات کےلئے وقت دیدیا ہے۔
اس دھرنا پروگرام میں حصہ لینے کے لیے کل 500 سرکاری ملازمین دہلی جا رہے ہیں۔ 8 تاریخ کو 200 افراد اور 9 تاریخ کو 300 سرکاری ملازمین ٹرین سے دہلی روانہ ہوں گے۔ 10 مارچ کو انتظامی ہڑتال کے بعد سنگمری جوائنٹ منچ کے لیڈروں نے دہلی جانے کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا۔ پہلے سے اعلان کردہ پروگرام کے مطابق وہ دہلی جا کر اپنے مطالبات پیش کریں گے۔ ڈی اے کے مطالبے پر سرکاری ملازمین کی مسلسل تحریک جاری ہے۔
گزشتہ سال ہی سے وہ ڈی اے کے مطالبے پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں مرکزی حکومت کی شرح پر ڈی اے ادا کیا جائے ۔ اس وقت ریاستی سرکاری ملازمین کو 6 فیصد ڈی اے مل رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ریاست کو واجب الادا ڈی اے کا 36 فیصد ادا کرنا چاہیے۔ لیکن وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی حکومت اپنے موقف پر اٹل ہے۔
15 فروری کو بجٹ اجلاس کے دن، ریاستی وزیر خزانہ چندریما بھٹاچاریہ نے وزیر اعلیٰ کی طرف سے بھیجے گئے خط کو پڑھ کر 3 فیصد مہنگائی الاؤنس (DA) کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد نوبنو نے 24 فروری کی شام اس سلسلے میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت سرکاری ملازمین، حکومت سے منظور شدہ تعلیمی اداروں، حکومت سے منظور شدہ خود مختار اداروں، حکومت سے حاصل شدہ باڈیز، پنچایت کارکنوں، میونسپلٹیوں، اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے لئے ڈی اے کا اعلان کر رہی ہے۔ یکم مارچ سے ملازمین کو 6 فیصد کی شرح سے ڈی اے ملے گا۔ جنوری 2021 میں، ممتا کی حکومت نے ڈی اے میں 3 فیصد اضافہ کیا تھا۔ اس سال کے بجٹ میں مزید 3 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ لہذا ریاستی سرکاری ملازمین کو مارچ سے 6 فیصد کی شرح سے ڈی اے ملے گا۔
یہ بھی پڑھیں:Strike By Court Employees مغربی بنگال کی تمام عدالتوں میں ملازمین کی جانب سے ہڑتال کا اعلان
مرکزی وزارت خزانہ نے پیر کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق مرکزی حکومت کے ملازمین کو اس سال یکم جنوری سے 42 فیصد مہنگائی الاؤنس (DA) ملے گا۔ اس لیے اس سال یکم جنوری سے مرکزی حکومت کے ملازمین کو 38 فیصد کے بجائے 42 فیصد کی شرح سے ڈی اے ملے گا۔ اور اس واقعہ نے ریاستی سرکاری ملازمین کے غصے میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ دوسری طرف 30 مارچ کو وزیر اعلیٰ نے احتجاج کرنے والے سرکاری ملازمین پر چور-ڈاکو کہہ کر حملہ کیا تھا۔