مغربی بنگال کے واحد اقلیتی یونیورسٹی عالیہ یونیورسٹی میں طلبہ گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے متعدد مطالبات کو لے کر یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
احتجاج کر رہے طلباء کا کہنا ہے کہ ان پر حملہ بھی ہوا جس میں دو طالب علم بری طرح زخمی ہوئے، جن میں طلباء یونین کے صدر ساجد الرحمان شامل ہیں۔
دھرنے پر بیٹھے عالیہ یونیورسٹی کے طلباء کا کہنا ہے کہ جب نیو ٹاؤن کیمپس میں ان پر حملہ ہوا اس وقت وزیر اقلیتی اور حکومت کے دو اور وزیر اسی کیمپس میں موجود تھے۔'
طلبہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور ایم اے ایم ای ڈپارٹمنٹ کے درمیان چپقلش کے نتیجے میں یونیورسٹی کا تعلیمی نظام متاثر ہو رہا ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے یونیورسٹی میں انٹرنیٹ کی سہولت معطل ہے جس کی وجہ سے طلباء کو لائبریری، مطالعہ اور ریسرچ پر کام جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ یونیورسٹی میں جاری بے ضابطگیوں اور مالی بد انتظامیوں کے خلاف طلباء گذشتہ 50 دنوں سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی دوران احتجاج کر رہے طلباء پر نیوٹاؤن کیمپس میں حملہ کیا گیا۔'
احتجاج کرنے والے ایک طالب علم محمد حبیب اللہ نے اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے وزیر اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم کو کئی بار خط لکھاکہ وہ ہماری بات ایک بار سن لیں، وہ ہمارے دھرنا منچ پر آئیں اور طلباء کی بات سن لیں، لیکن نہ وہ آئے اور نہ ان کا کوئی نمائندہ آیا۔ جب دو روز قبل ہمیں خبر ملی کہ وہ یونیورسٹی کے نیو ٹاؤن کیمپس میں آئے ہوئے ہیں تو ہم ان سے ملنے کے لیے نیو ٹاؤن کیمپس گئے، لیکن ہمیں کہا گیا کہ دو لوگ دفتر میں آکر بات کریں لیکن ہمارا مطالبہ تھا کہ وہ ہمارے دھرنا منچ پر آکر ہماری بات سن لیں جس پر انہوں نے دوسرے دن شام 4 بجے آنے کی بات کہی۔ اسی درمیان نیوٹاؤن کیمپس میں کچھ باہری لوگ پہنچ گئے۔ جن میں غیاث الدین ملا نام کا ایک سابق طالب بھی شامل تھا ۔مزید اس کے کچھ ساتھیوں نے ہماری تحریک کو بدنام کرنے کے لیے وزیر اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم کے خلاف نعرے لگانے لگے تاکہ ہم بدنام ہو جائے جس پر ہم نے اعتراض کیا جس کے بعد ان لوگوں نے ہم پر حملہ کر دیا۔'
ہمیں یقین ہے کہ یہ پہلے سے منصوبہ بند تھا، کیوں کہ جو لوگ اتنے دنوں سے کبھی نظر نہیں آئے وہ وزراء کے یونیورسٹی میں موجودگی سے کیسے آگاہ ہوئے، ہماری تحریک کو ختم کرنے کے لیے یہ سب کیا گیا ہے۔ اس حملے میں کئی طلباء بری طرح زخمی ہوئے ہیں جن میں طلباء یونین کے صدر ساجد الرحمان شامل ہیں۔ ان کی طبعیت اب بھی خراب ہے۔'
انہوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ جب سے ہم دھرنا و احتجاج کر رہے ہیں، ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اس دھرنے کو ختم کرنے کے لیے بہت کوششیں ہو رہی ہیں، کیونکہ ہمارے احتجاج کی وجہ سے یہ لوگ یونیورسٹی کی زمین چترنجن ہسپتال کو نہیں دے پا رہے ہیں اور ہم کبھی یہ نہیں ہونے دیں گے۔ ہم اسی زمین پر ہاسٹل اور کھیل کا میدان چاہتے ہیں۔ مزید تالتلہ مدرسہ بورڈ کے بیگم رقیہ بھون میں لڑکیوں کے لیے ہاسٹل بنایا جائے ہم اس کے لیے تحریک جاری رکھیں گے۔'
انہوں نے چترنجن نیشنل میڈیکل کالج کو زمین دینے کی بات پر حوالہ دیتے ہوئے چترنجن نیشنل میڈیکل کالج کے پرنسپل کا وہ خط دکھایا جو عالیہ یونیورسٹی کے وی سی کو لکھا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ایم اے ایم ای ڈپارٹمنٹ سے اس زمین کی حوالگی سے بات ہو چکی ہے، لہذا انہیں ہسپتال سے لگے ہوئے اس زمین کا نقشہ دیا جائے۔ گرچہ یہ زمین ان کے حوالے نہیں کیا گیا ہے، لیکن اس خط سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زمین کو نیشنل میڈیکل کالج کے حوالے کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ جس کے خلاف طلباء مسلسل ایم اے ایم ای ڈپارٹمنٹ کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
دوسری جانب طلباء کی تحریک کو ختم کرنے کے لیے دوسرے حربے بھی اپنائے جا رہے ہیں۔ عالیہ یونیورسٹی کے ایک پی ایچ ڈی اسکالر معراج الاسلام جو دو روز قبل ہوئے حملے میں زخمی ہوئے تھے اور ان کے کمر میں چوٹ آئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم 50 دنوں سے دھرنا کر رہے ہیں۔ اس دوراب جو لوگوں کبھی یونیورسٹی کیمپس میں نہیں نظر آئے وہ حکومت کے چار وزراء کے یونیورسٹی میں آنے کی بات سے کیسے آگاہ ہو گئے اور یونیورسٹی آ دھمکے۔ یہ سب منصوبہ بند تھا، ہمیں بدنام کرنے اور اس پوری تحریک کو نیا رخ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ہم یونیورسٹی کے بقاء کی لڑائی جاری رکھیں گے۔'
طلباء کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری تحریک خالص غیر سیاسی ہے لیکن اس کو کمزور کرنے کے لیے برسر اقتدار جماعت کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ تحریک ایس ایف آئی چلا رہی ہے تاکہ ان کو ہمارے خلاف کاروائی کرنے کا بہانہ مل جائے۔'
مزید پڑھیں: