مغلوں نے اپنی سینکڑوں سالہ حکومت کے دوران ہندوستانی معاشرے کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ آج بھارت میں کئی چیزیں مغلیہ سلطنت کی مرہوننت ہیں۔ مغلوں کے رہن سہن اور ان کے کھانے پینے کی چیزیں بھی ہندوستانی معاشرے میں رچ بس گئیں۔ مغلوں کے پکوان بھی ہندوستانی معاشرے کا حصہ بن گئے۔
مغل پکوان کو جغرافیائی اعتبار سے انفرادی طور پر مقبولیت حاصل ہے۔ جب اودھ کے آخری تاجدار نواب واجد علی شاہ کو معزول کرکے انہیں بنگال کے مٹیا برج بھیج دیا گیا تو ان کے ساتھ لکھنؤ کی پوری تہذیب بھی مٹیابرج منتقل ہوئی اور جب واجد علی شاہ نے مٹیابرج کو اپنا مسکن مان لیا تو پھر انہوں نے یہاں ایک چھوٹا لکھنؤ بسانے کی کوشش کی۔
واجد علی شاہ کے ساتھ ساتھ فن طباخی اور دیگر فنون کے ماہرین بھی مٹیابرج چلے آئے۔ واجد علی شاہ کے مٹیابرج قیام کے دوران مٹیا برج میں اودھ کا رنگ چڑھ گیا۔
آج بھی کولکاتا میں واجد علی شاہ کا خانوادہ موجود ہے۔
واجد علی شاہ کے پڑپوتے ڈاکٹر کوکب قدر مرزا اور ان کی اولادیں کولکاتا کے پیمینٹل اسٹریٹ میں آج بھی اپنے خاندانی مکان میں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر کوکب قدر مرزا کی بیٹی منزلت فاطمہ جو فن طباخی کی ماہر ہیں اور ایک اسٹوڈیو کچن چلاتی ہیں اور اپنے خاندان کی روایت اور کہانی کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے اودھی پکوان کو ہی ذریعہ بنایا ہے۔
انہوں بریانی اور بنگالی معاشرے میں اس مقبولیت پر ای ٹی وی بھارت سے ایک خصوصی بات چیت کے دوران بتایا کہ' اودھ کے حکمراں اپنے کھانے پینے کی چیزوں میں اکثر تجربے کیا کرتے تھے۔
16 ویں صدی میں آلو کی کاشت ہندوستان میں پرتگالیوں نے شروع کی تھی۔ انگریزوں کے ذریعے بنگال بھی پہنچی۔ اس وقت آلو عام لوگوں کی پہنچ سے دور تھا اور کسی نادر شے سے کم نہیں تھا۔
مٹیا برج کے قیام کے دوران ہی واجد علی شاہ کے باورچی خانے میں ہی پہلی بار بریانی میں آلو کا تجربہ کیا گیا اور واجد علی شاہ کو بہت پسند آئی اور انہوں ہدایت دی کہ جب بھی بریانی بنائی جائے اس میں آلو ضرور ڈالی جائے اس طرح کولکاتا کی آلو کے ساتھ منفرد ذائقے اور ہلکے مصالحے والی بریانی کا وجود عمل میں آیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کولکاتا میں بریانی واجد علی شاہ کی دین ہے۔ اس سے قبل مغل پکوان کا رواج تھا چونکہ مرشدآباد بنگال کا دارالحکومت تھا جو مغل سلطنت کا حصہ تھا جس کی وجہ سے پہلے بھی یہاں کے پکوان میں مغل کھانوں سے لوگ واقف ہو چکے تھے لیکن واجد علی شاہ کی آمد کے بعد یہاں کے پکوان میں انقلابی تبدیلی آئی اور آج ہم جو بریانی کھا رہے ہیں وہ نواب واجد علی شاہ کی ہی دین اور کولکاتا کی منفرد بریانی بھی واجد علی شاہ کی ہی مرہون منت ہے۔'
انہوں نے گذشتہ دس برسوں میں بنگالیوں میں بریانی کی مقبولیت کے حوالے سے بتایا کہ بنگال میں اردو زبان سے تعلق رکھنے والے یا مسلمانوں میں بریانی مقبول تو تھی ہی لیکن اب یہاں کے بنگالی ہندوؤں اور دیگر طبقات میں بھی بریانی بے حد مقبول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کولکاتا و اطراف کے ہر گلی کوچوں میں آپ کو بریانی کے ڈیگ نظر آ جائیں گے۔
واجد علی شاہ کھانے کے بہت شوقین تھے اور لکھنؤ میں اپنے باورچی خانے میں طباخی کے ماہرین رکھے ہوئے تھے اور پکوان میں نئے نئے تجربے کرتے رہتے تھے۔ ان کے آمد کے بعد جو لکھنوی تہذیب کے اہم جزو کبوتر بازی، پتنگ بازی، موسیقی اور کھانے پینے کی چیزیں بھی یہاں رواج پانے لگیں۔ مٹیابرج میں لکھنؤ کا رنگ نظر آنے لگا۔
سنہ 1887 میں ان کے انتقال کے بعد ان کے خانسامے مٹیابرج سے باہر تلاش معاش میں مرکزی کلکتہ پہنچے۔ ہم نے اپنے والی سے بھی یہ سنا تھا کہ واجد علی شاہ کے باورچی خانے میں کام کرنے والے جو ان کے ساتھ لکھنؤ سے آئے تھے وہ پورے کولکاتا میں پھیل گئے اور آہستہ آہستہ واجد علی شاہ کے باورچی خانے کے پکوان عام ہوتے گئے۔
آج جو کولکاتا میں مسلمانوں کے کھانوں میں اثر دیکھنے کو ملتا ہے، اصل میں وہ مغل، نظام کا ہی اثر ہے، لیکن اودھی کھانوں کا اثر ان میں نمایاں ہے۔
اگر آپ کولکاتا کی بریانی سے آلو نکال بھی دیں تو یہ لکھنؤ کی بریانی یا پلاؤ سے قریب تر نطر آتی ہے۔ کیونکہ کولکاتا کی بریانی ہلکی ہوتی ہے۔ اس میں مسالے کم اور خوشبو زیادہ ہوتی ہے اور بہت زیادہ روغنی نہیں ہوتی ہے جسے کھاکر بھاری پن محسوس نہیں ہوتا۔'
درگا پوجا میں کولکاتا میں بریانی کے تئیں بنگالیوں میں بہت ہی زیادہ دلچسپی دیکھی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بتایا کہ بنگالی بریانی کھانا بہت زیادہ پسند کرتے ہیں اور درگا پوجا کے موقع پر بریانی کے تئیں ان کا جذبہ دیکھنے لائق ہوتا ہے۔
بنگالیوں میں بریانی اتنی مقبول کیوں ہوئی اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی تاریخ اور ثقافت اور کھانے سے بہت محبت کرتے ہیں۔
منزلت فاتحمہ کہتی ہیں کہ مقامی لوگ میرے اسٹوڈیو کچن میں بھی اسی وجہ سے آتے ہیں کیونکہ ہمارا واجد علی شاہ کے خاندان سے تعلق ہے۔ ہماری اپنی روایت ہے اور انہیں یہ بہت اچھا لگتا ہے کہ وہ واجد علی شاہ کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے کے گھر آئے ہیں اور ان کے یہاں کھانا کھایا ہے۔
درگا پوجا کے وقت بریانی کو لیکر ان میں خاص رجحان نطر آتا ہے۔ اس کا احساس تب ہوا جب ہم نے کچن شروع کیا۔ گذشتہ پانچ چھ برسوں میں میں نے خود دیکھا ہے کہ بریانی بہت زیادہ مقبول ہوئی ہے اور بریانی اب کلکتہ کا ایک فاسٹ فوڈ بن گئی ہے۔ پاستا، پیزا کی طرح ہو گئی ہے۔
بنگالیوں کا حال اب یہ ہے کہ ان کے سامنے آپ بریانی اور مچھلی رکھ دیں تو ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ بریانی کا انتخاب کریں، حالانکہ مچھلی کی تئیں بنگالیوں کی دیوانگی سے کون واقف نہیں ہے۔
ای ٹی وی بھارت نے درگا پوجا میں بریانی کی مقبولیت کے حوالے سے کچھ بریانی کے شوقین بنگالی مداحوں سے بھی بات کی۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ بنگالی روایت کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ بریانی بنگالیوں میں اس قدر مقبول ہوئی ہے لیکن بنگالیوں نے بریانی کو اپنا بنا لیا ہے۔ اس کو اپنی ثقافت کا حصہ مان لیا ہے۔ آپ آلو والی بریانی بنگال کے علاوہ دیگر مقامات پر مشکل سے ہی پائیں گے۔
ایک اور مداح نے بتایا کہ بنگالی ذائقے کے دلدادہ ہوتے ہیں اور بریانی کا مطلب ہے ایک ہی کھانے گوشت چاول آلو انڈا اور بہترین مصالحے ایک ساتھ مل جاتے ہیں اور بہت پی بہترین ذائقہ دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ درگا پوجا پر بریانی سب سے زیادہ کیوں پسند کی جاتی ہے۔ درگا پوجا بنگالیوں کے لیے ایک جذبہ ہے، ایک فیسٹیول ہے۔ درگا پوجا پر ہم بہترین ملبوسات پہنتے ہیں، بہترین رسم نبھاتے ہیں، ایسے میں کھانا بھی بہترین ہونا چاہیے اور جب ہم سب مل کر ایک ساتھ درگا پوجا کے دوران کہیں سیر و تفریح کے لیے نکلتے ہیں تو بہترین کھانا کھانا چاہتے ہیں اور ایسے میں بریانی سے اچھا کیا ہوسکتا ہے۔'