کولکاتا:بدھ کی صبح سویرے بادل پھٹنے کے نتیجے میں بارش کے بعد جھیل ٹوٹنےسے شمالی سکم بہہ گیا۔ خطرے سے بچنے کے لیے سکم میں ڈیموں سے پانی چھوڑا گیا۔ اس پانی کے بہاؤ کی وجہ سے تیستا ندی میں پانی کی سطح ایک ہی لمحے میں 15-20 فٹ تک بڑھ گئی ۔ اس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ شمالی بنگال میں تیستا ندی کا پانی پڑوسی اضلاع تک پھیل سکتا ہے۔ اس دوران ریاست کے مختلف علاقوں میں کم دباؤ کی مسلسل بارش کی وجہ سے پانی جمع ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ڈی وی سی نے ڈیم کو بچانے کے لیے پانی چھوڑدیا ہے ۔
ڈی وی سی کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ آئندہ چند دنوں میں مزید پانی چھوڑے جانے کا امکان ہے۔ اس کے نتیجے میں ریاست کے سات سے آٹھ اضلاع میں سیلاب کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ اس صورتحال میں وزیر اعلیٰ ممتا نے بدھ کی دوپہر ایک ہنگامی میٹنگ کی۔کالی گھاٹ میں واقع اپنے گھر سے ہی میٹنگ میں حصہ انہوں نے لیا ۔چیف سکریٹری ہری کرشنا ترویدی اور وزیر اعلیٰ کے خصوصی مشیر الاپن بنرجی نے دیگر محکموں کے سکریٹریوں کے ساتھ میٹنگ کی۔ وہاں ممتا نے اپنے سکریٹریوں کو تمام ضروری ہدایات دیں۔
ممتا بنرجی نے کہاکہ ’’میں اپنی ٹانگ کی چوٹ کی وجہ سے باہر نہیں آسکتی ہیں۔ تاہم، میں نے ریاست کے کچھ وزراء اور انتظامی افسران کا اس کیلئے مقرر کیا ہے۔ وہ سیلاب کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مدنی پور، سبونگ اور گھٹل کے لیے اضافی احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہے۔ میں نے دو کنٹرول رومز کھولنے کا بھی حکم دیا ہے۔ تاکہ لوگ مشکل کی صورت میں رپورٹ کر سکیں۔ دوسرے نمبر کے ذریعہ 24X7 ہنگامی حالات میں لوگوں کی مدد کی جائے گی۔ تمام تعطیلات منسوخ کر دی گئی ہیں۔ کیونکہ پوجا کے سامنے ایسی آفت سے پہلے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:Sikkim Flash Flood سکم میں لاپتہ 23 فوجیوں کے سلسلے میں ممتا بنرجی کو تشویش
تاہم، چیف سکریٹری اور دیگر انتظامی افسران کو ہدایات دینے کے علاوہ، ممتا نے اس میٹنگ میں ریاست کے لوگوں کو کچھ پیغامات اور مشورے بھی دیے۔ ممتا نے کہاکہ میں ان لوگوں سے کہوں گی جو نشیبی علاقوں میں رہتے ہیں، براہ کرم گھر سے سرکاری کیمپ کے محفوظ پناہ گاہ میں آجائیں۔ سات سے آٹھ اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ ڈی وی سی کو دوبارہ پانی چھوڑنا ہے۔ مکٹ منی پور کا ڈیم ٹوٹ رہا ہے۔ اس لیے پانی مزید بڑھے گا۔لیکن ساتھ ہی ممتا نے کہا کہ ڈیزاسٹر ریسپانس ٹیمیں ان تمام علاقوں میں پہنچ گئی ہیں جہاں سیلاب کا خطرہ ہے۔ این ڈی آر ایف اور ایس ڈی آر ایف کی ٹیمیں بھی پہنچ چکی ہیں۔