مغربی بنگال میں اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کے لیے قائم عالیہ یونیورسٹی میں جاری بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دانشوروں کے ایک گروپ نے مطالبہ کیا ہے کہ یونیورسٹی کو سیاست کا اکھاڑہ بنانے کے بجائے سہ فریقی وزارت اقلیتی امور، یونیورسٹی انتظامیہ اور مسلم سول سوسائٹی کی میٹنگ منعقد کی جائے اور اس میں بحران سے نکلنے کی راہیں نکالی جائیں۔
خیال رہے کہ سنہ 2007 میں سابق بائیں محاذ حکومت نے'کلکتہ مدرسہ (مدرسہ عالیہ) جسے برطانوی گورنر ہسٹنگر نے 1765 میں مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے قائم کیا تھا کو یونیورسٹی کا درجہ دیا۔ تاہم یونیورسٹی اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی مختلف تنازعات کا شکار رہا ہے مگر اس وقت یونیورسٹی انتظامیہ اور وزارت اقلیتی امور کے مابین رسہ کشی نے سنگین صورت حال اختیار کرلیا ہے۔
ایک طرف وزارت اقلیتی امور نے یونیورسٹی انتظامیہ پر بدعنوانی اور لاپرواہی جیسے سنگین الزامات عائد کئے ہیں وہیں یونیورسٹی انتظامیہ بالخصوص اساتذہ کی یونین نے وزیر اقلیتی امور کے نام کھلا خط لکھتے ہوئے وزارت اقلیتی امور پر الزام عاید کیا ہے کہ بیوروکریٹ نے یونیورسٹی کا ناطقہ بند کردیا ہے ۔اس کی وجہ سے یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے۔ گزشتہ ایک سال یونیورسٹی کے پارک سرکس کیمپس میں انٹرنیٹ کی سہولیت نہیں ہے، گیسٹ اساتذہ کی تنخواہ نہیں دی جارہی ہے اور دیگر مالی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ ریاستی بجٹ میں یونیورسٹی کے لیے مختص بجٹ بھی جاری نہیں کیا جارہا ہے۔ ان بحران کا سیدھا اثر طلبا کے تعلیم پر بھی پڑرہا ہے۔
پینل ڈسکشن میں حصہ لیتے ہوئے عالیہ یونیورسٹی میں بنگلہ شعبہ کے صدر پروفیسر سیف اللہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'اساتذہ یونین جانچ کے خلاف ہرگز نہیں ہے، مگر جانچ کے لیے جو طریقے کار اختیار کیے گئے ہیں وہ غیر قانونی ہے۔ جانچ کمیٹی میں یونیورسٹی کے فیکلٹی کے کسی بھی ممبر کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ جانچ کے نام پر یونیورسٹی کے فنڈ کو روک دینے کا جواز کہا ں تک ہے۔ انہوں نے وزارت اقلیتی امور جس کے تحت عالیہ یونیورسٹی ہے پر سنگین الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وزارت جان بوجھ کر یونیورسٹی کو بحران کی طرف ڈھکیل رہی ہے۔'
سینٹ زیورس کالج میں شعبہ ریاضی کے پروفیسر ربیع الاسلام جنہوں نے یونیورسٹی کو بحران سے نکالنے کے لیے ایک وفد کے ساتھ وزارت اقلیتی امور کے وزیر اور افسران سے ملاقات کی تھی نے واضح لفظوں میں کہا کہ وزارت اقلیتی امور کو جانچ کرنےکے اختیارات ہیں مگر عام طور پر یہ روایت رہی ہے کہ تعلیمی ادارے میں ہونے والی جانچ کمیٹیوں میں ایجوکیشن سے شعبہ سے تعلق رکھنے والی کسی ایک شخصیت کو بھی شامل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جو یہاں نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'وزارت اقلیتی امور کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں فائنس آفیسر نہیں ہونے کی وجہ سے انتظامیہ کو فنڈ کے استعمال کا طریقہ نہیں ہے۔ ماضی میں یونیورسٹی کو جو فنڈ دئیے گئے وہ استعمال نہیں ہونے کی وجہ سے واپس ہوگئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وزارت کا الزام ہے کہ فنڈ کےلئے یونیورسٹی انتظامیہ جو درخواست کرتی ہے وہ صرف ایک سطری ہوتا ہے۔ربیع الاسلام نے کہا کہ ضرورت ہے اس بات کی ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور وزارت اقلیتی امور کام کاج کے طریقے کو اختیار کرے۔