مغربی بنگال کا واحد اقلیتی یونیورسٹی 'عالیہ یونیورسٹی' گذشتہ کئی ماہ سے تنازعات کا شکار ہے۔ یونیورسٹی میں مالی و انتظامی امور میں بد انتظامیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ یونیورسٹی وزارت اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم کے تحت آتا ہے۔ جبکہ ریاست کے تمام اعلی تعلیمی ادارے محکمہ اعلی تعلیم کے تحت کام کرتے ہیں۔ محکمہ اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم اور عالیہ یونیورسٹی انتظامیہ کے درمیان جاری چپقلش کا خمیازہ طلبا کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
یونیورسٹی میں مکمل طور تعلیمی سرگرمیاں بحال نہیں ہو پا رہی ہیں۔ ایم اے ایم ای ڈپارٹمنٹ کی جانب سے یونیورسٹی کا فنڈ روکے جانے سے یونیورسٹی میں کئی اہم کام نہیں ہو پا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے طلباء میں ایم اے ایم ای ڈپارٹمنٹ کے خلاف ناراضگی پائی جا رہی ہے۔ عالیہ یونیورسٹی کے طلباء نے یونیورسٹی کے پارک سرکس کیمپس کی زمین مبینہ طور پر کسی دوسرے ادارے خو دیئے جانے کی بات سے بھی ناراض ہیں اور اس خلاف پارک سرکس کیمپس میں طلباء اس کے خلاف احتجاج و مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں عالیہ یونیورسٹی کے طلباء یونین کے صدر ساجد الرحمان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ یونیورسٹی گذشتہ کئی ماہ سے مختلف طرح کے تنازعات کا شکار ہے۔ یونیورسٹی کے فنڈ ایم اے ایم ای ڈپارٹمنٹ نے روک دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں یونیورسٹی کے بجلی کا بل ادا نہیں ہو پارہا ہے۔ یہاں پر سیکورٹی گارڈ کا کام کرنے والے اہلکاروں کو گذشتہ چار ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہے۔ یونیورسٹی کو متعدد معاملات کا بہانہ بناکر ایم اے ایم ای ڈپارٹمنٹ نشانہ بنا رہی ہے اور یونیورسٹی جمود کا شکار ہو رہی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف ایم اے ایم ای ڈپارٹمنٹ نے ایک جانچ بٹھائی ہے جس ہم طلباء نے خیر مقدم کیا ہے، لیکن جانچ کے نام پر ایم اے ایم ای ڈپارٹمنٹ نے یونیورسٹی کے اخراجات کا فنڈ روک دیا ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی کے کئی کام رکے پڑے ہیں۔ یونیورسٹی کے وی سی اور ایم اے ایم ای ڈپارٹمنٹ کے افسر غلام انصاری کے درمیان جاری چپقلش کے نتیجے میں یونیورسٹی بحران کا شکار ہے۔