آج ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ سبھاش چندر بوس کو انگریزوں کا ناشتہ کیوں پسند تھا؟ یہ 1936 کی بات ہے جب نیتا جی کو دارجلنگ کے ایک بنگلے میں نظر بند کردیا گیا تھا۔ گڈاپہار بنگلے میں وہ چھ ماہ تک قید میں رہے۔ یہاں انہوں نے روٹی، پلیٹ اور پیالوں کو پیامات کی منتقلی کا ذریعہ بنایا اور آسانی سے انگریزی جاسوسوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کام کیا۔
نیتا جی، قید خانہ سے کولکاتا و دیگر مقامات میں موجود اپنے ساتھیوں کو روٹیوں کے ذریعہ ہدایات دیا کرتے تھے۔ نیتا جی کو نظر بندی کے دوران کسی سے ملنے یا بات کرنے کی اجازت نہیں تھی، سوائے ان کے شخصی بٹلر ’کالو سنگھ لامہ‘ کے۔
ہر صبح کالو ناشتے کی ٹرے لے کر نیتا جی کے کمرے میں آتے جبکہ نیتاجی زیادہ تر دنوں میں پوری روٹی کھانا پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ روٹی بچادیتے اور پلیٹ میں ایسے ہی چھوڑ دیتے تاہم کالو سنگھ اسے ٹھکانے لگانے کے لیے باورچی خانے میں واپس لاتے، لیکن ان بچی ہوئی روٹیوں میں نیتا جی کے پیامات اور ہدایات ہوتی تھیں جنہیں کالو جمع کرتے تھے۔ جس کے بعد اسے اپنے جوتوں کے تلوؤں میں چھپاکر کولکاتا پہنچاتے۔ یہ سب برطانوی جاسوسوں کی ناک کے نیچے ہوتا۔
گڈا پہار میں نیتا جی کی نظربندی کے دوران کالو سنگھ لامہ حقیقی کامریڈ بن گئے۔ کالو کا خاندان آج بھی اُس وقت کے واقعات کو یاد کرتا ہے۔ کالو کی بیٹی موتی کو بھی نیتا جی سے ملنے کی اجازت تھی۔ موتی کو نیتا جی کے ساتھ گذارے گئے تمام لمحات یاد تھے۔ وہیں کالو سنگھ کا خاندان اسی گڈا پہاڑ بنگلہ میں رہتا تھا۔