Labour Day 'مہنگائی سے پریشان مزدور طبقہ فاقہ کشی پر مجبور'
عالمی یوم مزدور کے موقع پرای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مزدوری کرنے والوں نے کہا کہ 'بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے مزدور طبقہ فاقہ کشی کرنے پر مجبور ہیں۔' Labour Day
مظفرنگر:دنیا بھر میں یکم مئی کو عالمی یوم مزدور منایا جاتاہے۔ یوممزدوروں کو عزت دینے کے مقصد سے ہر برس یکم مئی کو کا پہلا دن ان کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ جسے یوم مزدور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یوم مزدور نہ صرف مزدوروں کو عزت دینے کا دن ہے، بلکہ اس دن مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز بھی بلند کی جاتی ہے۔ تاکہ انہیں مساوی حقوق مل سکیں۔ تو آئیے جانتے ہیں کہ یوم مزدور کی تاریخ اور اس دن کو منانے کا مقصد کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یوم مزدور منانے کی روایت 137 برس سے چلی آ رہی ہے، لیکن اس کا کیا مطلب ہے؟ در اصل یوم مزدور کی جڑیں سنہ 1886 میں امریکہ میں ہونے والی مزدور تحریک سے جڑی ہوئی ہیں۔ آج جو روزآنہ مقررہ 8 گھنٹے کام کرنے اور ہفتے میں ایک دن کی چھٹی کا حق، یہ سب اسی تحریک کی وجہ سے ہیں۔ سنہ 1880 کی دہائی امریکہ سمیت مختلف مغربی ممالک میں صنعت کاری کا دور تھا۔ اس دوران مزدوروں سے 15-15 گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ وہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کام کرنے پر مجبور تھے۔ فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈز اینڈ لیبر یونینز، جو کہ امریکہ اور کینیڈا میں ٹریڈ یونینوں کی ایک تنظیم ہے، نے فیصلہ کیا کہ یکم مئی سنہ 1886 کے بعد مزدور روزانہ 8 گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کریں گے۔ وہ دن آیا تو امریکہ کے مختلف شہروں میں لاکھوں مزدوروں نے استحصال کے خلاف ہڑتال کی۔ یہیں سے ایک بڑی مزدور تحریک کا آغاز ہوا۔ پورے امریکہ میں مزدور سڑکوں پر نکل آئے۔ اس دوران پولیس نے کچھ مزدوروں پر گولی چلائی جس میں کئی مزدور ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد جب سنہ 1889 میں پیرس میں بین الاقوامی سوشلسٹ کانفرنس منعقد ہوئی تو یکم مئی کو مزدوروں کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس طرح آہستہ آہستہ پوری دنیا نے یکم مئی کو یوم مزدور یا مزدوروں کے دن کے طور پر منانا شروع کر دیا۔
آج عالمی یوم مزدور کے موقع ای ٹی وی اردو کی ٹیم نے اترپردیش کے ضلع مظفرنگر کے مزدور چوک پر جاکر مزدوروں سے ان کا حال جاننے کی کوشش کی۔ انہوں نے بتایا کی بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے انہیں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بتایا کی ایک مہینے میں کچھ ہی روز ہماری مزدوری لگتی ہے اور اوپر سے مہنگائی اتنی ہے کی ہم گھر کا خرچ بھی نہیں نکال پا رہے ہیں۔ ہم بد سے بدتر زندگی جینے کو مجبور ہیں۔ ہمارے بچے کھانے کو مانگتے ہیں، لیکن ہمارے پاس دلاسے کے علاوہ دینے کو اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے گھروں میں بڑے بزرگوں کی کوئی پینشن بھی نہیں بندھی ہوئی ہے۔ ہمارے گھر بھی کرائیں کے ہیں۔ ہمیں وزیر اعظم کی جانب سے دیے جانے والے مکانات بھی ہمیں نہیں دیے گئے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہم مزدوروں کی پینشن باندھی جائے، ہمیں بھی پکّے مکان تقسیم کئے جائیں۔ ہمارے گھر کے راشن اور بزرگوں کی پینشن کا انتظام کیا جائے، جس سے کی ہم بھی اپنے گھر والوں کا اچھی طریقے سے پیٹ بھر سکے اور دیش کی ترقی میں اپنا تعاون دے سکیں۔'
مزید پڑھیں: