اتراکھنڈ: ریاست اتراکھنڈ کے کاشی ضلع سے فرقہ وارانہ کشیدگی کی خبریں آرہی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ماحول اس حد تک خراب ہو گیا ہے کہ مسلم کمیونٹی کے لوگ اپنے کاروبار سمیٹ کر نقل مکانی کر نے پر مجبور ہیں۔ بہت سے مسلم خاندان پروک علاقہ چھوڑ چکے ہیں حالانکہ پولیس انتظامیہ اس کی تردید کر رہی ہے اور نقل مکانی کی خبروں کو مسلسل مسترد کر رہی ہے۔ اتراکھنڈ کے اترکاشی ضلع کے پورولا قصبے میں فرقہ وارانہ کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب ہندو شدت پسندوں کے ہجوم نے ایک مسلم دکاندار پر حملہ کر دیا۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا ہے، جس میں دائیں بازو کے کارکنان کا ایک گروپ جئے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک مبینہ مسلم دکاندار کے بند دروازے پر لاٹھیوں سے حملہ کر رہا ہے۔
وہیں خبر رساں ایجنسی کے مطابق مقامی تاجر شکیل نے اپنا 42 سالہ کاروبار چھوڑ کر دہرادون میں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پرولا میں بگڑتے ماحول کی وجہ سے انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ شکیل کا کہنا ہے کہ ان کے والد 42 سال قبل یہاں آئے تھے اور کپڑوں کی تجارت کرتے تھے۔ تقریباً 15 سال پہلے انہوں نے پرولا میں کپڑے کی دکان کھولی۔ لیکن اب بگڑتے ہوئے حالات کی وجہ سے وہ دہرادون شفٹ ہو رہے ہیں۔ شکیل نے بتایا کہ کرن پور میں ان کی دکان ہے۔ ان کے بھائی کا وہاں پہلے سے میڈیکل اسٹور ہے۔ رپورٹ کے مطابق پرولا میں 8 تاجروں نے اپنی دکانیں چھوڑ دی ہیں، جب کہ یمنا وادی میں اپنی دکانیں چھوڑنے والوں کی تعداد اب بڑھ کر 12 ہو گئی ہے، جب سے ماحول خراب ہوا ہے، مسلم تاجر علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اس کشیدگی کی وجہ سے بی جے پی رہنما اور کارکن بھی بچ نہیں سکے۔ اترکاشی سے بی جے پی اقلیتی سیل کے ضلعی سربراہ محمد زاہد بھی بدھ کو اپنے خاندان کے ساتھ پرولا سے روانہ ہوئے۔ زاہد کا کہنا ہے کہ وہ تین سال قبل بی جے پی میں شامل ہوئے تھے اور وہ 25 سال سے یہاں رہ رہے تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی رہنما علاقہ چھوڑ چکے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب حکمران جماعت کے رہنما یہاں محفوظ نہیں تو وہ یہاں کیسے محفوظ رہیں گے۔ ان لوگوں کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں تو عام لوگوں کا کیا بنے گا۔