بین ذات اور بین المذاہب شادی کو لے کر ٹہری گڑھوال ضلع کے سوشل ویلفیئر آفیسر دپانکر گھلڈیال کے ذریعے دیے گئے دستخط شدہ حکم پر تنازع کھڑا ہو گیا ہے، حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ 'قومی ذات پات کی روح کو زندہ رکھنے اور معاشرتی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے بین ذات اور بین الذاہب شادیوں سے بہت مدد مل سکتی ہے'۔ جس کے بعد ریاست میں بین المذاہب شادی پروموشن اسکیم پر ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی 2014 میں اس وقت کی کانگریس حکومت کی جانب سے بین ذات اور بین المذاہب شادیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ترمیم شدہ خط پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں، ان دونوں خطوط کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے مبینہ 'لو جہاد' کو بڑھاوا دینے کے الزامات لگنے لگے ہیں، تنازع میں اضافہ دیکھ کر اتراکھنڈ حکومت بین المذاہب شادی پروموشن اسکیم میں ترمیم کرنے جارہی ہے۔
در حقیقت 1976 میں بین ذات پات اور بین مذاہب شادیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے سنہ 1976 میں بین ذات پات اور بین مذاہب شادیوں کی حوصلہ افزائی سے متعلقہ قواعد بنائے گئے تھے، اس میں بین ذات پات اور بین مذاہب شادی کرنے والے جوڑے کو 10 ہزار روپے بطور مراعات دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔
2014 میں اس وقت کی کانگریس حکومت نے اس اسکیم کے شق چھ میں انعام کی رقم میں ترمیم کی تھی۔ اس کے تحت اتراکھنڈ میں شادی بیاہ اور بین مذاہب شادی کرنے والے جوڑے کو 50 ہزار روپے کی فراہمی کی تجویز کی گئی تھی۔
اس خط کے سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہونے کے بعد حکومت نے چیف سکریٹری اوم پرکاش کو اسکیم میں ترمیم کرنے کی ہدایت دی ہے، وزیر اعلی تریویندر سنگھ راوت کے میڈیا کوآرڈینیٹر درشن سنگھ راوت نے بتایا کہ اس اسکیم پر 2014 میں نظرثانی کی گئی تھی اور ایک نیا حکم جاری کیا گیا تھا، جس میں بین ذات اور بین المذاہب شادی پر 10 ہزار روپے کی حوصلہ افزا رقم کو بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دیا گیا تھا لیکن اب اتراکھنڈ کی حکومت اس میں تبدیلی کرنے کا اردہ رکھتی ہے۔