الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش حکومت کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ریاست میں 2011 کے بعد تعمیر کردہ غیر قانونی مذہبی مقامات کو فوری طور پر ہٹا دیا جائے اور 2011 کے پہلے کے تعمیرات کو منتظمین کسی دوسری جگہ پر منتقل کر کے تعمیر کرائے۔ اس کے بعد سے ہی انتظامیہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنا رہی ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بارہ بنکی کے ثمیر میں واقع مسجد کے متولی مشتاق علی نے بتایا کہ 9 مارچ کو رات میں ہمیں نوٹس ملا، جس کا جواب دے دیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ضلع انتظامیہ پہلے جواب نہیں لے رہی تھی لہذا ہم نے پوسٹ کے ذریعے جواب بھیج دیا تھا۔
مشتاق علی نے بتایا کہ مسجد بہت پرانی ہے، ہم لوگ اپنے بچپن سے وہاں نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ 2019 میں ہم نے یو پی سنی سینٹرل وقف بورڈ میں مسجد کو درج کرا دیا تھا۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مسجد میں نماز پڑھنے سے منع کردیا گیا ہے۔
ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بتایا کہ 2008.09 میں یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ نے سبھی ریاستوں کے ہائی کورٹ کو یہ معاملہ بھیج دیا تھا، تبھی سے ہائی کورٹ میں مانیٹرنگ ہو رہی ہے۔
سپریم کورٹ کی ہدایت تھی کہ "جو عبادت گاہیں پبلک پلیس میں بن گئی ہیں، جن میں سڑک، پارک، سرکاری زمین شامل ہیں، انہیں ہٹا دیا جائے لیکن پرانی عبادت گاہوں پر سپریم کورٹ خاموش ہے۔" 2016 میں ہائی کورٹ میں آرڈر ہوا، جس میں یہ جملہ آ گیا کہ 2011 کے بعد تعمیر کردہ مذہبی مقامات کو ہٹا دیا جائے اور 2011 کے پہلے کی عبادت گاہوں کو دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے، جس کی ذمہ داری منتظمین کی ہوگی۔