مرادآباد: ریاست اتر پردیش کے مرادآباد میں تیرہ اگست 1980 کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں ہزاروں لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ مراد آباد کی تاریخ کا یہ ایک سیاہ دن ہے، جسے شاید ہی کوئی بھول سکے۔ دراصل 43 سال بعد اتر پردیش کی یوگی حکومت 13 اگست 1980 کو مراد آباد میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کی رپورٹ عام کرنے جا رہی ہے۔
دراصل 13 اگست 1980 کو اتر پردیش کے مراد آباد کی عیدگاہ میں صبح 8 بجے عید کی نماز ادا کی جا رہی تھی۔ اسی دوران گلشہید چوراہے سے ایک جانور نمازیوں کے ہجوم میں داخل ہوا، جس سے نمازی مشتعل ہوگئے اور ہنگامہ بڑھنے لگا۔ الزام ہے کہ پی اے سی نے بغیر کسی حکم کے معصوم لوگوں پر گولی چلائی جس کی وجہ سے وہاں کئی لوگوں کی موت ہو گئی۔ لوگوں کی ہلاکت کے بعد ناراضگی بڑھ گئی اور دونوں اطراف سے فائرنگ کے الزامات لگنے لگے، اس دوران پی اے سی پر لوگوں کو گھروں سے نکال کر لاپتہ کرنے یا گولی مار کر ہلاک کرنے کا الزام بھی لگا۔
اس فرقہ وارانہ تشدد میں سب سے زیادہ مراد آباد کے گلشہید تھانہ علاقے کے مقامی افراد متاثر ہوئے۔ عید کی نماز کے دوران عینی شاہد چندر پرجاپتی (جن کی عمر اس وقت 10 سال تھی) نے گلشہید اسکوائر سے ایک جانور(سور) کو نمازیوں کے درمیان گھستے ہوئے دیکھا، جس کے بعد ہنگامہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ چندر پرجاپتی بتاتے ہیں کہ سؤر کو کسی نے جان بوجھ کر نہیں چھوڑا تھا۔ چندر پرجاپتی کا کہنا ہے کہ حکومت فسادات کی رپورٹ کو پبلک کر رہی ہے، اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
وہیں دوسری جانب فساد متاثرین کا کہنا ہے کہ ان کے اہل خانہ کو پولیس پوچھ گچھ کے بہانے لے گئی اور انہیں غائب کر دیا گیا۔ جن کا آج تک کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ اس کے بعد اندرا گاندھی نے گھر کر یقین دہانی کرایا کہ وہ معاملے کی جانچ کروائیں گی۔ جس کے بعد حکومت نے معاملے کی تحقیقات کا اعلان بھی کیا، لیکن آج تک نہ تو تحقیقات کا کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی کوئی معاوضہ ملا۔