اردو

urdu

ETV Bharat / state

Moradabad Muslim Massacre یوگی حکومت 1980 کے مراد آباد فسادات پر رپورٹ جاری کرےگی

اتر پردیش کی یوگی حکومت 13 اگست 1980 کو مراد آباد میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کی رپورٹ عام کرنے جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مرادآباد میں تیرہ اگست 1980 کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں دو سو سے زائد لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔

مرادآباد میں تیرہ اگست 1980 کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد، تاریخ کا ایک سیاہ دن
مرادآباد میں تیرہ اگست 1980 کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد، تاریخ کا ایک سیاہ دن

By

Published : May 22, 2023, 4:25 PM IST

یوگی حکومت 1980 کے مراد آباد فسادات پر رپورٹ جاری کرےگی

مرادآباد: ریاست اتر پردیش کے مرادآباد میں تیرہ اگست 1980 کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں ہزاروں لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ مراد آباد کی تاریخ کا یہ ایک سیاہ دن ہے، جسے شاید ہی کوئی بھول سکے۔ دراصل 43 سال بعد اتر پردیش کی یوگی حکومت 13 اگست 1980 کو مراد آباد میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کی رپورٹ عام کرنے جا رہی ہے۔

دراصل 13 اگست 1980 کو اتر پردیش کے مراد آباد کی عیدگاہ میں صبح 8 بجے عید کی نماز ادا کی جا رہی تھی۔ اسی دوران گلشہید چوراہے سے ایک جانور نمازیوں کے ہجوم میں داخل ہوا، جس سے نمازی مشتعل ہوگئے اور ہنگامہ بڑھنے لگا۔ الزام ہے کہ پی اے سی نے بغیر کسی حکم کے معصوم لوگوں پر گولی چلائی جس کی وجہ سے وہاں کئی لوگوں کی موت ہو گئی۔ لوگوں کی ہلاکت کے بعد ناراضگی بڑھ گئی اور دونوں اطراف سے فائرنگ کے الزامات لگنے لگے، اس دوران پی اے سی پر لوگوں کو گھروں سے نکال کر لاپتہ کرنے یا گولی مار کر ہلاک کرنے کا الزام بھی لگا۔

اس فرقہ وارانہ تشدد میں سب سے زیادہ مراد آباد کے گلشہید تھانہ علاقے کے مقامی افراد متاثر ہوئے۔ عید کی نماز کے دوران عینی شاہد چندر پرجاپتی (جن کی عمر اس وقت 10 سال تھی) نے گلشہید اسکوائر سے ایک جانور(سور) کو نمازیوں کے درمیان گھستے ہوئے دیکھا، جس کے بعد ہنگامہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ چندر پرجاپتی بتاتے ہیں کہ سؤر کو کسی نے جان بوجھ کر نہیں چھوڑا تھا۔ چندر پرجاپتی کا کہنا ہے کہ حکومت فسادات کی رپورٹ کو پبلک کر رہی ہے، اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

وہیں دوسری جانب فساد متاثرین کا کہنا ہے کہ ان کے اہل خانہ کو پولیس پوچھ گچھ کے بہانے لے گئی اور انہیں غائب کر دیا گیا۔ جن کا آج تک کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ اس کے بعد اندرا گاندھی نے گھر کر یقین دہانی کرایا کہ وہ معاملے کی جانچ کروائیں گی۔ جس کے بعد حکومت نے معاملے کی تحقیقات کا اعلان بھی کیا، لیکن آج تک نہ تو تحقیقات کا کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی کوئی معاوضہ ملا۔

متاثرہ علاقے میں رہنے والے محمد وسیم کا کہنا ہے کہ پی اے سی کے لوگ ان کے گھر میں گھس آئے اور فائرنگ کر دی جس سے ان کی والدہ ہلاک ہو گئیں۔ ماں کی میت کو 2 دن تک گھر میں رکھا گیا پھر رام پور سے نواب مکی میاں مراد آباد آئے اور انہوں نے یقین دلایا کہ آپ لاش پولیس کو دے دیں۔ پوسٹ مارٹم کے بعد اس کی تدفین کی جائے گی۔ جب لاش کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پولیس نے اس کی والدہ کی لاش نہ دکھائی اور نہ ہی دی اور خود ہی لاش کو غائب کردیا۔

دوسری جانب فہیم حسین کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کے چار افراد کو بھی پولیس پوچھ گچھ کے لیے لے گئی، اس وقت کا منظر بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جلیانوالہ باغ کے بارے میں سنا تھا لیکن یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے رپورٹ پبلک کرنے کا اعلان کیا ہے، امید ہے کہ قصوروار سامنے آئیں گے اور انہیں سزا ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس منظر کو کبھی نہیں بھول سکتے اور نہ ہی بھلا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: Akola Riot کیا دی کیرالہ اسٹوری کے سبب اکولہ میں فساد برپا ہوا۔۔۔؟

دوسری طرف مرادآباد میں 1980 کے فرقہ وارانہ تشدد کیس کی تحقیقاتی رپورٹ کو عام کرنے کے اعلان کے بعد سماج وادی پارٹی کے مرادآباد کے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر ایس ٹی حسن نے کہا کہ وہ اس پورے فساد کے لئے پی اے سی کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ پی اے سی نے ہی لوگوں کو مارا اور ان کا خون بہایا۔ جب پی اے سی والوں کے خلاف کارروائی کی بات آئی تو موجودہ افسران اور حکومت نے کہا کہ وہ پولیس والوں کے حوصلے نہیں توڑیں گے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details