علیگڑھ: دور جدید خواتین کی شمولیت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا کیوں کہ ایسا مانا جاتا ہے کہ بااختیار خاتون نسل نو کو تربیت دیتی ہیں اور جدید معاشرہ میں خواتین کی خود مختاری اور بااختیاری کو حق مانا جاتا ہے اور اسلام نے بھی خاتون کو بااختیار مانا ہے جس کی زندہ مثال حضرت خدیجہ کی شکل میں با اختیار بزنس وومن کا ماڈل ہے وہیں دوسری جانب حکومت ہند نے بھی خاتون کو بااختیار بنانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے روز اول سے ہی خواتین کو تعلیم یافتہ بنانے کا خیال رکھا ہے۔ سنہ 1906 میں ضلع علی گڑھ میں پہلا ادارہ اپر فورٹ علاقے میں چھہ طالبات کے ساتھ 'بالائے قلعہ' کے نام سے قائم کیا جو آج اے ایم یو ویمنس کالج کے نام سے مشہور ہیں جہاں بیرونی ممالک سمیت تین ہزار سے زیادہ طالبات زیر تعلیم ہیں اور جو خواتین کو تعلیم یافتہ اور بااختیار بنانے میں ایک اہم رول ادا کر رہا ہے۔
اے ایم کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ 1920 میں سلطان جہاں بیگم کو پہلی وائس چانسلر بنایا گیا پھر اس کے بعد سے آج تک دوبارہ کسی خاتون کو چانسلر، پرو چانسلر اور نا ہی وائس چانسلر بنایا گیا جبکہ اے ایم یو ملک کا واحد تعلیمی ادارہ ہے جس کو اپنے وائس چانسلر کے پینل بنانے کا حق حاصل ہے۔ اسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی خاتون چانسلر کے بعد آج تک کسی خاتون کو دوبارہ چانسلر اور 103 سالوں میں کسی خاتون کو یونیورسٹی نے اپنا وائس چانسلر کیو نہیں بنایا ؟ کیا یونیورسٹی خود ہی نہیں چاہتی کہ کوئی خاتون اے ایم یو کی وائس چانسلر بنے۔۔۔؟ طارق منصور کے اے ایم یو وائس چانسلر کے عہدے سے استعفی کے بعد سے ہی یونیورسٹی کیمپس میں اگلے وائس چانسلر کی چرچہ گرم ہو گئی ہیں اس بار کسی خاتون کو وائس چانسلر بنانے کی بھی بات کی جارہی ہیں۔ کچھ ماہ قبل ایک پروگرام کے دوران خاتون وائس چانسلر سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے اے ایم یو کی پروفیسر نے بتایا کہ دور جدید میں خاتون ہر میدان میں آگے ہیں ہم خواتین اپنے گھر اور دفتر کو دیکھتے ہیں تو ہم ایک اچھی ایڈمنسٹریٹر بھی ہو سکتی ہیں اور آج جب ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کی وائس چانسلر خواتین بن سکتی ہیں تو اے ایم یو کی بھی وائس چانسلر خاتون بن سکتی ہے۔