لکھنؤ:اتر پردیش میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہو چکا ہے۔ بی جے پی کو بڑی جیت حاصل ہوئی ہے۔ وہیں کانگریس پارٹی اور بی ایس پی اور اے آئی ایم ائی ایم نے بھی بہتر مظاہرہ کیا ہے جب کہ سماجوادی پارٹی کو 2017 کے مقابلے میں ووٹ فیصد میں کافی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ ماہرین مانتے ہیں کہ 2024 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں یوپی بلدی انتخابات کے نتائج کافی کارگر ثابت ہوں گے۔ ایک طرف جہاں بی جے پی نے زبردست جیت حاصل کی تو وہیں دوسری جانب وزیر اعلی نے اپنی شبیہہ مضبوط کی ہے۔ بی جے پی کے جیت کے پیچھے مسلم ووٹوں میں بکھراؤ اہم وجہ مانی جارہی ہے۔ بی جے پی مخالف ووٹوں کے تقسیم سے 17 میئر کے عہدے پر قابض رہی جبکہ دیگر کسی سیاسی جماعت کا کھاتہ بھی نہیں کھلا۔
کانگریس پارٹی اقلیتی سیل کے ریاستی صدر شہنواز عالم نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا اگر تجزیہ کریں گے تو کانگریس پارٹی کا بہترین مظاہرہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرادآباد میں میئر کے عہدے کے لیے کانگریس امیدوار رضوان قریشی کو صرف چار ہزار ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اتنا ہی نہیں مسلم اکثریتی علاقوں میں کانگریس کا بہترین مظاہرہ رہا۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف جہاں سماج وادی پارٹی کو 2022 کے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے 95 فیصد ووٹ دیا تھا لیکن بلدیہ انتخابات میں مسلمانوں نے سماج وادی پارٹی سے منہ موڑ لیا یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر جگہ پر سماجوادی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں جہاں پر مضبوط آپشن ملا ہے مسلمانوں نے اسی امیدوار کو ووٹ کیا ہے۔ مثلا میرٹھ میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار انس کو زبردست ووٹ حاصل ہوئے جبکہ سماجوادی پارٹی کے امیدوار تیسرے نمبر پر رہے۔ اسی طرح کئی مقامات پر ان کے کارپوریٹر نگر پنچایت کے چیئرمین اور نگرپالیکا کے چیئرمین کو بھی جیت حاصل ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی ایسے شہر ہیں جہاں پر سماجوادی کا گڑھ مانا جاتا تھا لیکن اس بار شکست کا سامنا کرنا پڑا رام پور میں عام آدمی پارٹی کی امیدوار کو کامیابی ملی سوار اسمبلی نشست کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی اتحاد کو کامیابی ملی۔ اس سے واضح ہورہا ہے کہ مسلم ووٹ سماج وادی پارٹی سے کھسکا ہے اور کانگریس کی جانب آیا ہے اور 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں مسلمان پوری طرح کانگریس کی جانب آئیں گے۔
کانگریس پارٹی کی کارکن صدف جعفر نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس نتائج کی بنیاد پر 2024 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کا اندازہ کررہے ہیں تو بالکل بے بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ووٹنگ کے دوران کئی مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹر لسٹ سے نام غائب تھے اور یہ بہت بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹر لسٹ میں میرا نام بھی نہیں تھا اور کئی ایسے علاقے ہیں جہاں پر پورے محلے کے نام لسٹ میں شامل نہیں تھے، یہ صرف لکھنؤ میں نہیں ہوا بلکہ پورے ریاست میں اس طریقے کا کام ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے بی جے پی کو جیت حاصل ہوئی ہے۔