ریاست اترپردیش کے شہر سہارنپور کے دیوبند کے دگچاڑی علاقے میں بھائی کے قتل کے ڈھائی مہینے بعد جب اہل خانہ نقل مکانی کرنے کے لیے گھر سے نکلا اور گاؤں والوں کو اس بات اطلاع ملی تو گاؤں میں افراتفری مچ گئی۔
سہارنپور کے دیوبند علاقہ کے گاﺅں دگچاڑی میں بھائی کے قتل کے بعد پورے اہل خانہ نے ڈھائی مہینے کے بعد جب نقل مکانی کرنے کے لیے گھر سے نکلے تو گاﺅں کے باشندوں نے انہیں روک لیا۔
سہارنپور کا خاندان نقل مکانی پر مجبور کیوں؟ گاﺅں کے باشندوں کا کہنا تھا کہ وہ اسے کسی قیمت پر نقل مکانی نہیں کرنے دیں گے، اور وہ لوگ دیر شام تک اہل خانہ کو سمجھاتے رہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ 25 اگست کو مذکورہ گاﺅں میں بال کاٹنے کو لیکر ایک جھگڑا ہوا تھا جس میں شام لال سنگین طور پر زخمی ہوگیا تھا، جس کی علاج کے دوران میرٹھ کے ایک ہسپتال میں یکم ستمبر کی شام کو موت ہوگئی تھی۔
حالانکہ اس لڑائی میں جہاں شام لال کا بھائی جانی اوربھارت بھی زخمی ہوا تھا، جبکہ وہیں دوسرے فریق کی جانب سے نریش زخمی ہواتھا، حالانکہ پولیس نے ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرکے ملزمان کی گرفتاری شروع کردی تھی۔
مقتول شام لال کے بھائی بھارت اور جانی سمیت اہل خانہ نے گاﺅں چھوڑنے کی اطلاع سے گاﺅں کے باشندوں میں افراتفری مچ گئی، بڑی تعداد میں گاﺅں کے باشندے شام لال کے گھر پہنچ گئے اور ان سے گاﺅں چھوڑنے کی وجہ معلوم کی، لیکن بھارت اور جانی گاﺅں چھوڑنے کی کوئی وجہ نہیں بتایا۔
نقل مکانی کی اطلاع ملنے پر موقع پر پہنچی پولیس نے اہل خانہ سے بات چیت کی، جبکہ گاﺅں والوں کا دعویٰ ہے کہ مقتول کے اہل خانہ کا دوسرے فریق سے صلح ہوگیا ہے، اور گاﺅں کے لوگوں کے سوالوں سے بچنے کے لیے گاﺅں چھوڑ رہے ہیں۔
دوسری جانب جانی اور بھارت نے اس طرح کے کسی بھی صلح سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ گاﺅں میں رہ کر کسی رنجش میں جینا نہیں چاہتے۔
گاؤں والوں کا ایسا خیال ہے کہ موقع پر بھیم آرمی کے کارکنان گاﺅں کے ذمہ داران اور سی او چوب سنگھ کو اس واقعہ کے بعد لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔