ریاست اترپردیش کے شہر علی گڑھ میں واقع عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان نے ادارے کی تعمیر کے لیے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر تاریخی نمائش میں ایک ڈرامہ کے ذریعے چندہ اکٹھا کیا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سرسید احمدخان کے خوابوں کی تعبیر ہے جس کی پوری دنیا میں ایک پہچان ہے۔ اس ادارے کی تعمیر کے لیے سرسید احمدخان نے ہر وہ ممکن کوشش کی، اور طریقہ اپنایا جس کو وہ کرسکتے تھے۔
علی گڑھ کی تاریخی نمائش میں 8 اور 10 فروری سنہ 1884 کو سرسید احمد خان نے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر ایک ڈرامہ پیش کیا تھا، جس میں علامہ شبلی نعمانی جیسی شخصیت بھی موجود تھی، اتنا ہی نہیں انہوں نے علی گڑھ نمائش میں ہی ایک کتابوں کی دکان بھی لگائی تھی۔
جب سرسید نے پیروں میں گھنگرو باندھے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ رابطہ عامہ کے ایسوسی ایٹ رکن انچارج پروفیسر راحت ابرار نے خصوصی گفتگو میں بتایا سرسید احمد خان نے اس ادارے کے قیام کے لیے جو بھی ممکن طریقہ ہوسکتے تھے وہ سب اپنائے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا سب سے پہلا کام یہ جو ادارہ قائم کیا اس کا جو بنیادی تصور ہے وہ ہے اپنی مدد آپ۔ اپنی مدد آپ کے لیے انہوں نے چندہ شروع کیا اور کہا کہ جو لوگ کالج کی جو بانڈری وال ہے، جو شخص 25 روپے دے گا اس کا نام بانڈری وال پر لکھا جائے گا (جو آج بھی لکھا ہوا ہے) اور جو شخص 250 روپے دے گا اس کا نام قیام گاہ کے کمروں پر کلاس روم پر لکھا جائے گا اور جو شخص 1500 روپے دے گا اس کا نام اسٹریچی ہال پر لکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ کم سے کم رقم تھی اس کے علاوہ انہوں نے بہت سے طریقہ اپنائے اور ان طریقوں میں انہوں نے ایک بہت بڑا حلقہ قائم کیا اور ظاہر ہے اس حلقہ میں ان کے جو دوست احباب تھے ان میں ان کو مرکزیت حاصل تھی۔
اے ایم یو کے بانی سرسید احمد خان نے ادارے کی تعمیر کے لیے علی گڑھ کی نمائش میں گھنگرو باندھ کر ڈرامہ پیش کیا۔ اور انہوں نے 24 مئی سنہ 1875 میں ایک چھوٹے سے مدرسہ سے اس مہم کا آغاز کیا تھا، جبکہ سنہ 1877 میں کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا حالانکہ سرسید کے انتقال 1898 میں ہوا تھا اس کے 22 برس بعد سنہ 1920 میں مدرسے کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا جو آج اپنی ایک سو سالہ تقریب منانے کی جانب گامزن ہے۔
ڈاکٹر راحت ابرار نے مزید کہا سرسید احمد خان نے وہ تمام کام کیے جو ادارے کی ترقی کے لیے ضروری تھے۔
خیال رہے کہ علی گڑھ میں آج کل نمائش لگی ہوئی ہے،آٹھ، 10 فروری سنہ 1884 میں سرسیداحمدخان نے اسی نمائش میں ڈرامہ کیا تھا اس ڈرامے میں بڑے بڑے لوگ شامل تھے، جس میں علامہ شبلی نعمانی جیسے بزرگ بھی موجود تھے، اتنا ہی نہیں ضلع کے افسران کے علاوہ اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ کینیڈی، موریاں، اس وقت سول سرونٹانگریز بھی اس میں شامل تھے اور ایک افغانستان کا سیاح سنجر بھی آیا ہوا تھا، اسی وقت اس نے بھی فارسی میں ایک نظم پیش کی، اس طرح سرسید احمد خان نے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر چندہ جمع کرنے کا طریقہ اپنایا۔
سرسید کا خیال تھا کہ کم از کم لوگ ڈرامہ کو دیکھ کر پیسے دیں گے۔ سرسید احمد خان نے علی گڑھ کی تاریخی نمائش میں ایک کتاب کی دکان بھی لگائی، جس سے اس ادارے کی توسیع اور ترقی ہوسکے۔