ای ٹی وی بھارت نے دونوں ادارے کی اردو زبان کے فروغ و ارتقاء میں مشترکہ طور پر کیا کردار رہا؟ اس پر بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر و ممتاز اردو داں پروفیسر آفتاب احمد آفاقی سے خاص بات چیت کی۔
پروفیسر آفتاب احمد افاقی نے کہا کہ بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) کا قیام سنہ 1916ء میں عمل میں آیا تھا اور سنہ 1920 میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کو باضابطہ یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے نام سے معروف ہوا۔
دونوں یونیورسٹیز کے قیام میں چار برس کا فرق ہے یعنی چار سال بعد مسلم یونیورسٹی کا وجود عمل میں آیا ہے۔ ملک کے لیے یہ دونوں یونیورسٹیز لیڈنگ پوزیشن میں رہیں۔ یہ دونوں ادارے ابتدائی ایام سے ہی اردو زبان کی ترویج و ارتقاء میں بہت ہی فعال رہے ہیں۔
انہوں کہا کہ یہاں علم و ادب پر کام کرنے والی بڑی بڑی شخصیات نے تحقیقی، تنقیدی، ادبی اور تدریسی شعبے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں جس سے ان دونوں اداروں کا نام پوری دنیا میں پھیلا ہے۔
پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے کہا کہ فائز بنارسی سے لے کر مولوی مہیش پرشاد، حکم چند نیئر نے تحقیقی میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے وہ تاریخی ہے۔ اسی طرح سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی کئی بڑی شخصیات رونما ہوئیں مثلاً تنقید کے میدان میں آل احمد سرور، وحید اختر، خلیل الرحمٰن اعظمی، رشید احمد صدیقی، قاضی افضال، قاضی جمال، پروفیسر ابوالکلام قاسمی جیسی اعلی مرتب شخصیات نے اردو ادب میں ایک امتیاز قائم کیا اور اردو ادب کے فروغ میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عملی طور پر ہم اے ایم یو سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہمارے یہاں مختلف لیکچرز ہوئے اور ہم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ کو مدعو کیا۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے کئی لوگوں نے مسلم یونیورسٹی میں ملازمت حاصل کی۔ مثلاً اس شعبے سے بھی متعدد اساتذہ وہاں گئے اور ملازمت حاصل کیں جہاں پر پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے بنارس ہندو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور مسلم یونیورسٹی میں لیکچرر کے بعد پروفیسر ہوتئے۔ ڈپارٹمنٹ چیئرمین ہو کر کچھ ماہ قبل ہی سبکدوش ہوئے۔