علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) شعبہ لسانیات کے صدر پروفیسر ایم جہانگیر وارثی نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ 'اردو بھارتی فلموں میں اپنی کشش کھو رہی ہے۔'موجودہ دور میں بالی ووڈ (ہندی فلم انڈسٹری) مغربی تھیٹر سے اثر پزیر ہوئی ہے۔ ایک بین ثقافتی تجربے کو نئے معنی دیے جا رہے ہیں۔
'اردو بھارتی فلموں میں اپنی کشش کھورہی ہے' اردو مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ اگر مسلمانوں کی کوئی زبان ہوسکتی ہے تو وہ عربی ہونی چاہئے۔ اردو کا تعلق بھارت کی گنگا جمنی ثقافت سے ہے۔ ہندی اور اردو تکمیلی اور تکملی زبانیں ہیں۔ یہ ایک دوسرے کو مضبوط کرنے والی بہنوں کی طرح ہیں۔
زبان ثقافت کی شناخت اور گفتگو کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ زبان انسانی خیالات، جذبات اور احساسات کے تبادلے کا بھی اہم وسیلہ ہے۔ اپنی زبان کو جاننا اپنی ثقافت کو برقرار رکھنے اور اسے محفوظ رکھنے کا طریقہ ہے۔ حالیہ دنوں میں لسانی اور ثقافتی بیداری کے احساس میں اضافہ ہوا ہے اور اس احساس کے ساتھ ثقافتی اعتبار سے علاقائی زبانیں قبول عام ہو رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کیا جموں میں اردو صحافت تنزلی کا شکار ہے؟
زبان نظریاتی تبدل کی تشہیر کا اہم وسیلہ ہے۔پروفیسر ایم جہانگیر وارثی نے بتایا فلم عوام میں معاشرتی تبدیلی اور بیداری کا ایک موثر وسیلہ ہے۔
ناظرین کی تعداد اور ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد کے لحاظ سے بھارت دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت کا مرکز ہے۔ جس کی ابتدا تقریبا سو سال قبل ہوئی تھی اور اس کے بعد یہ بھارت میں بتدریج مقبول ہوتی چلی گئی۔
'بالی ووڈ' کی اصلاح سے مراد بمبئی، بھارت (ممبئی کا پرانا نام) ہے اور بالی ووڈ کا مطلب کیلیفورنیا ہے، جو امریکی فلمی صنعت کا مرکز ہے۔
بالی ووڈ فلموں کی زبان، بھارتی، بنیادی طور پر ہندی بولی ہے جس میں اردو الفاظ بھی شامل ہوتے ہیں۔ فلم ساز ایک حکمت عملی کے تحت بھارتی زبان کو استعمال کرتے ہیں تاکہ فلم بینوں کی بڑی تعداد تک ان کی رسائی ممکن ہو۔ اگر کوئی فلم صرف ہندی یا صرف اردو زبان کا ہی استعمال کرتی ہے تو وہ سامعین کے ایک بڑے طبقے سے محروم ہو جائے گی۔ لہذا فلمی زبان کی حیثیت سے بھارتی کو استعمال کرنے سے بالی ووڈ سامعین کی بڑی تعداد کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ تاہم، اس رجحان میں تبدیلی آرہی ہے کیوں کہ ہندی فلموں میں اردو زبان کے شاعری حسن کے باوجود اس کے استعمال میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔
1990 کی دہائی کے آخر اور 2000 کی دہائی کے اوّلین حصّہ میں ہندی زبان کی فلموں کے ٹائٹل عام طور پر تین زبانوں میں لکھے جاتے تھے تاہم آج کل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اردو کو بالی ووڈ میں لوگ پسند نہیں کرتے کیوں کہ اب کسی فلم کا ٹائٹل اردو میں نہیں لکھا جاتا۔ اردو کے استعمال میں کمی آنے کے باوجود ہندی سینما پر اس نے جو دیر پا اثر چھوڑا ہے اس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہندی سنیما میں دکھائی جانے والی عدالت کی کارروائی میں اردو کا استعمال کافی مقبول ہے۔ "چشم دیدگواہ"، "جرم"، "تعزیرات ہند کے تحت"، "باعزت بری" وغیرہ جیسی اصطلاحات عدالت میں استعمال ہونے والی اردو کی زندہ مثالیں ہیں۔
پروفیسر جہانگیر نے مزید بتایا بالی ووڈ کی بیشتر فلموں کی شناخت جس زبان سے متعین ہوتی ہے وہ 'بھارتی' ہے۔ جو شمالی اور وسطی جنوبی ایشیا کے بیشتر حصوں کی زبان کے لئے ایک لیبل سمجھی جاتی ہے۔ اس خطے میں اصل بولی جانے والی زبان ہندی (جسے عموما ہندوستانی بھی کہا جاتا ہے) کو عام طور پر دو رسم الخط : دیوگری اور نستعلیق میں لکھا جاتا ہے۔ اگرچہ عوامی زبان میں لوگ اس زبان کو ہندی کہتے ہیں، لیکن جب بھی اسی نستعلیق میں لکھا جاتا ہے، ڈی وی ڈی باکس اس فلمی زبان کو اردو کے طور پر شناخت کرتے ہیں۔
سیاسی اور مذہبی اختلافات سے قطع نظر 'ہندی' اور 'اردو' بنیادی طور پر یکساں زبانیں ہیں۔ ممبئی میں مسلمانوں سے متعلق بنی کسی ہندی فلم کی درجہ بندی اردو میں کرنا عجیب ہو گا لیکن یہ بھی درست ہے کہ ممبئی فلموں کی زبان میں بڑی تعداد میں فارسی اور عربی الفاظ شامل ہیں اور اس طرح ایک لحاظ سے انہیں 'اردو' سمجھا جا سکتا ہے۔ اردو کی فرہنگ میں عربی اور فارسی کے بہت سے الفاظ شامل ہیں، لہذا اگر کوئی گانا اردو میں تخلیق کیا گیا تو بلاشبہ اس میں عربی اور فارسی کا اثر بھی شامل ہوگا۔