بنارس: گیانواپی مسجد کے احاطے کا اے ایس آئی (آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا) سروے کرانے کے بعد اس کی رپورٹ بھی 18 دسمبر کو عدالت میں داخل کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کیا ہے، اس تعلق سے ابھی تک کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ ثبوتوں کی فہرست سیل بند لفافے میں عدالت میں جمع کرائی گئی ہے۔ ہندو فریق اس رپورٹ کو عام کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے جب کہ مسلم فریق اس کے خلاف ہے۔ ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین نے ایک درخواست کے ذریعے مکمل رپورٹ کی کاپی مانگی ہے۔ ساتھ ہی چاروں مدعی خواتین کی جانب سے عدالت سے رپورٹ کو عام کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ سروے رپورٹ پبلک ڈومین میں جائے گی یا نہیں اس پر عدالت آج فیصلہ سنائے گی۔
- دو حصوں میں داخل کی گئی رپورٹ
وارانسی کے ضلع جج اجے کرشنا ویشیش کی عدالت میں 18 دسمبر کو اے ایس آئی نے تقریباً 90 دن کے سائنسی سروے کے 37 دن بعد عدالت میں 1000 سے زیادہ صفحات کی رپورٹ داخل کی۔ عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ دو حصوں میں ہے۔ موٹی فائلوں پر مشتمل پہلے حصے کی رپورٹ سفید مہر بند پیکٹ میں عدالت کی میز پر رکھی گئی تھی جب کہ ایک پیلے رنگ کے لفافے میں سروے کے دوران ملنے والے 250 شواہد موجود تھے۔
- مسلم فریق کا رپورٹ کو خفیہ رکھنے پر اصرار
مدعی ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین اور سدھیر ترپاٹھی کا کہنا ہے کہ پوری کارروائی کی رپورٹ پبلک ڈومین میں آنی چاہیے۔ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ رپورٹ میں کیا ہے اور احطے کے اندر کیا پایا گیا۔ ساتھ ہی مسجد کی دیکھ بھال کرنے والی انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کی جانب سے اعتراض درج کیا گیا ہے۔ مسجد کمیٹی نے واضح طور پر عدالت سے استدعا کی ہے کہ سروے رپورٹ کو کسی بھی حالت میں پبلک ڈومین میں نہیں آنا چاہیے۔ اس کی کاپی صرف مدعی اور مدعا علیہان اور ان کے متعلقہ وکلاء کو دی جائے۔ تاہم مدعی کے وکیل وشنو شنکر جین نے اس کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے عدالت میں درخواست دی ہے اور اس رپورٹ کی کاپی اپنے میل آئی ڈی پر فراہم کرنے کو کہا ہے۔ مدعا علیہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے رپورٹ سیل بند لفافے میں جمع کرانی چاہیے تھی جس کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ ساتھ ہی مسلم فریق کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں رپورٹ ٹاپ سیکریٹ ہونی چاہیے اور عدالت کو اسے عام کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔