لکھنو: اردو زبان و ادب میں قصہ گوئی ایک ایسا صنف ہے جس کی ابتدا سولہویں صدی کے میں ہوئی۔ 1857 کے بعد لکھنؤ میں قصہ گوئی کا فن عروج پر رہا۔ قصہ گوئی میں امیر حمزہ اور میر باقر علی کا نام سرے فہرست رہا۔ موجودہ عہد میں فاروقی برادران نے قصہ گوئی کے احیاء کیلئے اہم کام کیے ہیں۔ وہیں لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی طالبہ شازیہ خان اور طالب علم شجاع بھی قصہ گوئی میں منفرد مقام بنا رہے ہیں۔
قصہ گو شازیہ نے کا کہنا ہے کہ ابتداء میں ہمیں یہ احساس تک نہیں تھا کہ لوگ اسے اتنا سراہیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک تقریبا پانچ اہم اسٹیج پر قصہ گوئی کا موقع ملا جس میں عوام کی خوب داد و تحسین ملا اور اس فن کو مزید سیکھنے کا جذبہ ملا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اردو کا ایک ایسا فن ہے جس میں مرد و خواتین یکساں شریک ہوتے ہیں اور اس میں مستقبل بھی بنا سکتے ہیں۔ آج جب اسٹینڈ اپ کامیڈی شوز یا دیگر اسٹیج شوز کا رواج عام ہوگیا ہے ایسے دور میں قصہ گوئی کے فن کو روزگار سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔ ہم پُر امید ہیں کہ اس فن کو سیکھنے میں بڑی تعداد میں طلبا و طالبات دلچسپی لیں گے۔