جانیں آموں کا راجہ دسہری کی کہانی، لکھنو کے ایک گاؤں سے کیسے دنیاں بھر میں پھیل گیا لکھنؤ: اترپردیش کے لکھنؤ سے 20 کلومیٹر فاصلے پر واقع دسہری گاؤں ہے جو آم کی کاشت کے لیے معروف ملیح آباد سے متصل ہے۔ دسہری گاؤں میں تقریبا 200 برس قدیم آم کا ایک ایسا درخت موجود ہے جس کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ یہ دسہری آم کی ماں ہے۔ یہیں سے دسہری آم کی شروعات ہوئی جو اب بین الاقوامی سطح پر پھیل چکا ہے۔ اس نسل کے آم کے ذائقے سے لوگ خوب محظوظ ہو رہے ہیں۔ لکھنؤ کے دسہری گاؤں میں یہ درخت کیسے اُگا، اس کی مختلف کہانیاں عوام کے مابین موضوع گفتگو رہتی ہیں۔
دسہری گاؤں میں رہنے والے شنکر یادو بتاتے ہیں کہ اس کی تاریخ کے حوالے سے کوئی پختہ کہانی موجود نہیں ہے تاہم کہا جاتا ہے کہ نواب صاحب نے آم کھاکر گھٹلی پھینکی تھی جس کے بعد یہ آم کا درخت اُگا جب اس نے پھل دیا تو اس کا ذائقہ حیرت انگیز تھا۔ لوگوں نے اس کی دیکھ ریکھ شروع کی۔ تب سے اج تک یہ درخت موجود ہے اور اسی درخت سے دنیا بھر میں دسہری آم کی کاشت ہو رہی ہے۔
اس کے تعلق سے ایک اور کہانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانے میں ایک پٹھان آم کا گٹھر لیے جا رہا تھا جس کی ملاقات ایک سادھو سے ہوئی اور وہیں دونوں لوگ بیٹھ گئے، بات چیت کرنے لگے، بات اتنی بڑھ گئی کہ دونوں میں دوستی ہو گئی۔ پٹھان نے سادھو کو تحفے میں کچھ آم دیے۔ اس وقت پٹھان نے سادھو سے کہا تھا کہ یہ انوکھا آم ہے جس کا ذائقہ حیرت انگیز ہے، لیکن کچھ ہی دیر گزرنے کے بعد دونوں میں لفظی جنگ ہوئی ہے۔ لڑائی کے بعد پٹھان وہ آم وہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ کچھ برس بعد جب اس مقام پر ایک آم کا درخت اگا تو مقامی لوگوں نے اس کی دیکھ بھال شروع کی۔ تقریبا 10 برس بعد اس میں پھل شروع ہوگیا۔ اس آم کو جب مقامی لوگوں نے کھایا تو اس کا ذائقہ حیرت انگیز تھا جس کے بعد اس کی دیکھ ریکھ شروع ہو گئی اور اس کی نسلیں پھلنے پھولنے لگیں۔ یہیں سے دسہری آم کی شروعات ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں:Mangoman Haji Kalimullah مینگو مین حاجی کلیم اللہ کیلے پر تحقیق کرنے میں مصروف
کہا جاتا ہے کہ اس درخت پر لگنے والے آم کو فروخت نہیں کیا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں کوئی بھی شخص اگر اس پیڑ سے ایک آم توڑتا ہے تو اس پر 500 روپے کا جرمانہ پڑتا ہے۔ یو پی حکومت نے اس کو تاریخی مقامات میں شمار کیا ہے۔ اس کی دیکھ ریکھ سمیر زیدی کے حوالے ہے۔ یہ زمین نوابوں کی زمین ہے۔ یہ جگہ سیاحتی مقامات میں بھی شمار کی جانے لگا ہے۔ یہ درخت سایہ دار اور گھنا ہے۔ اس کی شاخیں موٹی ہیں اور تناور ہیں۔ درخت کے ارد گرد کٹیلے تاروں سے گھیرا گیا ہے تاکہ کوئی بھی شخص درخت کو نقصان نہ پہنچا سکے۔