اردو

urdu

ETV Bharat / state

بریلی :شہید خان بہادر خان کی یاد میں تقریب منعقد

ریاست اترپردیش کے شہر بریلی کے بیٹے خان بہادر خان اپنے نام کی طرز پر بہادری اور جاں بازی کے بہترین مثال تھے۔ہر برس ان کی شہادت کو یاد کرتے ہوئے اُن کے مزار پر تقریبات منعقد کیے جاتے ہیں۔

By

Published : Aug 12, 2021, 9:22 PM IST

شہید خان بہادر خان کی یاد میں تقریب منعقد
شہید خان بہادر خان کی یاد میں تقریب منعقد

جشنِ یومِ آزادی سے قبل مجاہدین آؔزادی کی قربانی اور شہادت کو یاد کرنے کے مقصد سے ”امرت مہا اتسو“ منعقد کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں بریلی میں بھی اُس شہید کو یاد کیا گیا، جس نے برطانوی حکومت کی حکمرانی کے باوجود بریلی ڈویژن کو تقریباً گیارہ مہینے تک آزاد رکھا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب میرٹھ سے تحریک آزادی کا اعلان ہو چکا تھا۔

بریلی میں واقع ضلع جیل نہ صرف ایک جیل ہے، بلکہ اس جیل کا احاطہ مادرِ وطن کی جاں بازی کا گواہ ہے۔ اس جیل کے احاطے میں سنہ 1857ء میں معتدد مجاہدین آزادی کو پھانسی دیئے جانے سے قبل قید کرکے رکھا گیا تھا۔ ان تمام شہداء میں سب سے عظیم شخصیت کا نام خان بہادر خاں ہے۔ جب 10 مئی سنہ 1857 کو میرٹھ سے تحریک آزادی کا اعلان ہوا تو اس کی اطلاع 14مئی کو بریلی پہنچی تھی۔

یہاں جاں نثارانِ وطن نے برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ روہیلہ سردار خان بہادر خان نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ 31مئی سنہ 1857 کو صوبہ دار بخت خاں کی قیادت میں برطانوی حکومت کے اس وقت کے مجسٹریٹ، سِوِل سرجنٹ، جیل سُپرنٹینڈنٹ اور بریلی کالج کے پرنسپل ”سی بک“ کو سرعام قتل کر دیا تھا۔

شام پانچ بجے تک بریلی ڈویژن پر مجاہدین آزادی نے قبضہ کر لیا تھا۔ بریلی میں موجود برطانوی حکمرانوں نے بریلی چھوڑ دی اور جان بچاکر نینی تال فرار ہو گئے اور وہیں جاکر پناہ لی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کے بعد تقریباً گیارہ مہینے تک بریلی ضلع برطانوی حکومت کی حکمرانی سے آزاد رہا۔

یہ بھی پڑھیں:جنگ آزادی میں اشفاق اللہ خان کا کردار

نواب خان بہادر خان کی جاں بازی کے یوں تو بہت سے قصّے ہیں۔ لیکن اُنکے پھانسی کے تختہ پر کھڑے ہونے کے دوران کا ایک تاریخی واقعہ ہے، جو آج بھی اُنکے قصّہ کا مطالعہ کرنے والوں کے خون میں آتش فشاں جوش بھر دیتا ہے۔ جب اُنہیں پھانسی کے تختے پر لے جایا گیا، تب اُنہوں نے برطانوی حکومت کے سپہ سالاروں کی جانب خوں ریز آنکھوں سے دیکھا اور بلند آواز میں کہا کہ 'میں نے ایک سو سے زیادہ ہندوستانیوں کو غلام بناکر ظلم و زیادتی کرنے والے، ہندوستانیوں کے دشمن انگریزوں کو موت کی نیند سُلایا ہے۔ میں نے ایسا کرکے نیک کام کیا ہے۔ یہ میرا آخری دن ہے۔ ایک دن اس حکومت کا بھی ملک میں آخری دن ہوگا۔ میں رہوں، نہ رہوں۔ میرے ملک کے باشندے ایک دن آزاد ہندوستان کا سویرا ضرور دیکھیں گے۔ تمہاری پھانسی کے پھندے کم پڑ جائیں گے، لیکن ہندوستانیوں کے گلے کم نہیں پڑیں گے'۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خان بہادر خان کی پھانسی کے بعد بریلی میں ہزارون نوجوان جنگِ آزادی کے انقلاب میں شامل ہوکر برطانوی حکومت کے خلاف باغی ہوگئے۔

ملک کے مختلف علاقوں میں ایسی ہزاروں کہانیاں اور قصّے تاریخ کے اوراق میں رقم ہیں، جنہوں نے ملک کی آن بان شان کے لیے اپنی جان کی قربانی دی۔ بریلی میں جب کبھی بہادری کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو وہ خان بہادر خان کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ لہذا ہر برس خان بہادر خان کی یاد میں اُن کے مزار پر میلے کے مانند تقریبات منعقد کیے جاتے ہیں۔ جس میں شہری بھی شرکت کرتے ہیں اور شہیدوں کے وارثین بھی۔ ضلع انتظامیہ کے افسران اس تقریبات میں منتظم کا کردار ادا کرتے ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details