واضح رہے کہ 1857 کے دوران جب انگریز ریاست اتر پردیش پر مکمل طور سے قابو کر چکے تھے اور نوابین اودھ چھوڑ کر جا رہے تھے۔ اس وقت ذمین داروں اور راجاؤں نے ان سے لڑائی لڑی تھی۔
اس وقت قومی یکجہتی اور ہندو مسلمان کے درمیان رشتوں کو نبھانے کی منفرد مثال نظر آئی تھی۔
گاندھی نواز مفکر راج ناتھ شرما کے مطابق اودھ کی ملکہ جس وقت نیپال جانا چاہتی تھیں، اس وقت انہوں نے بہرائچ ضلع کی چہلاری ریاست کے راجا بھل بدر سنگھ چہلاری کو راکھی اور دوپٹہ بھیج کر مدد کا مطالبہ کیا تھا۔
یہ بھی واضح ہو کہ راجا بھل بدر سنگھ چہلاری اودھ سے باغی تھے۔ ٹیکس کے لین دین کو لیکر ان کا بیگم حضرت محل سے اختلاف تھا۔ بیگم حضرت محل نے ان سے مدد کی دریافت اس وقت کیا تھا، جس وقت وہ اپنی بارات سے واپس لوٹے تھے۔
راجا چہلاری کو پہلے یہ محصوص ہوا تھا کہ ان سے ٹیکس کا مطالبہ کیا گیا۔ اس بات کو لیکر وہ اودھ کی ملکہ پر غصہ بھی ہوئے تھے کہ ان کی شادی کے روز ان سے یہ مطالبہ کر دیا گیا۔ لیکن جب انہیں پتا چلا کہ ان سے مدد کا مطالبہ کیا گیا ہے، تو وہ وہیں سے بارہ بنکی کے لئے نکل پڑے اور اوبری کے جنگل آ گئے۔