معاشرے میں رہتے ہوئے بھی معاشرے سے دور رہنا اُن کا مقدر ہے۔ وہ کبھی بھی معاشرتی رشتوں میں شمار نہیں کیے جاتے ہیں اور آج بھی اُن کی قبولیت پر سخت بحث جاری ہے۔ خوشی کے دنوں میں دروازے پر تالیاں بجاکر وہ نظرانہ مانگتے ہیں۔ ناچ کرتے ہوئے گانا گاکر دعائیں بھی دیتے ہیں۔ بحران کی اس گھڑی میں، وہی ہاتھ ضرورتمندوں کو سہارا دے رہے ہیں اور خوب مدد کر رہے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے بعد سے خواجہ سرا ہر روز اپنے گھر کے دروازے پر کھانا اور رسد تقسیم کر رہے ہیں۔گھر میں کوئی خوشی کا موقع ہو، شادی نکاح ہو، گھر میں کسی بچّے کی پیدائش ہو تو دروازے پر کسی خواجہ سرا کا آنا لازمی ہے۔ کچھ لوگ دروازے پر خواجہ سرا کی آمد کو اچھا سمجھتے ہیں۔ معاشرے سے دور رہ کر ”بدھائی“ گاکر اور ناچ گانا گاکر دروازے سے جو کچھ روپیہ یا کھانا مل جاتا ہے، اُسے میں گزارا کر لیتے ہیں۔
لیکن جب اسی معاشرے کو خواجہ سراؤں کی ضرورت ہوتی ہے، تو وہ اپنے ہاتھ پیچھے نہیں کرتے ہیں۔ اب ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان ہونے کے بعد ظاہر ہے غریب اور مزدور طبقہ کو دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے مشکل ہو رہا ہے۔