اسرار الحق مجاز کا انتقال آج ہی کے دِن سنہ 1955 میں محض 44 سال کی عمر میں دماغ کی رگ پھٹ جانے سے ہو گیا تھا۔
اس موقع پر دہلی سے خصوصی طورپر آئے ہوئے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے شعبۂ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر سلیم قدوائی نے مجاز کے تئیں اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجاز کے بھانجے جاوید اختر گو کہ یونیورسٹی کے منٹو سرکل اسکول میں ان کے سینئر تھے لیکن ان سے قربت کی بناء پر وہ مجاز کو اپنے ماموں کی طرح ہی دیکھتے تھے۔
انہوں نے اپنی اس اضطراب کیفیت کا بھی ذکر کیا جب مجاز کی موت کی خبر لکھنؤ سے شائع ہونے والے ایک روزنامہ کے ذریعہ جب ان کو ملی تھی۔
احمد عرفان علیگ نے مجاز کی وفات پر مختلف شعرأ کے منظوم خراج عقیدت پر مبنی ایک مختصر مگر جامع اِسکِٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ مجاز کی زندگی امنگوں ،حوصلوں سے بھرپور شروع ہوئی اور محرومیوں، مایوسیوں میں گھِر کر ختم ہوگئ ۔۔۔
وقار حسن و محبت بھی جِس پہ ناز کرے
مجاز وہ کہ حقیقت بھی جس پہ ناز کرے
انور حبیب علوی نے مجاز کی مشہور غزل
خود دل میں رہ کے آنکھ سے پردہ کرے کوئی
ہاں لطف جب ہے پا کے بھی ڈھونڈا کرے کوئی
فاتحہ خوانی میں ایسوسی ایشن کے سرپرست سہیل فاروقی، صدر طارق صدیقی، جوائنٹ سکریٹری انجنئیر محمد غفران، سابق سکریٹری ڈاکٹر شکیل قدوائی وغیرہ خصوصی طور پر موجود تھے۔