لکھنؤ:خواجہ معین الدین چشتی لینگوئج یونیورسٹی اوربھارتی بھاشا سمیتی، وزارت تعلیم، حکومت ہند کے اشتراک سے انٹرنیٹ کے توسط سے ترجمہ کے مسائل اور حل کے موضوع پر جاری سہ روزہ ورکشاپ کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر رام منوہر لوہیا یونیورسٹی ایودھیا کے سابق وائس چانسلر پروفیسر منوج دکشت نے کہا کہ ’’مواصلاتی عمل کو کامیاب بنانے میں اگرچہ زبان کا اہم کردار ہے لیکن بعض اوقات یہ عمل اس طور سےبھی مکمل ہو جاتا ہے کہ اس میں زبان سے ایک لفظ بھی نہیں بولا جاتا اور دو یا دو سے زیادہ افراد ایک دوسرے کا مدعا سمجھ لیتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مختلف علوم میں زبان کے استعمال اور علم کے دائرے کو وسعت دینے میں ترجمہ نگاری کے عمل کی افادیت پر مدلل انداز میں روشنی ڈالی اور کہا کہ ’’کامیاب ترجمہ اسے ہی کہا جا سکتا ہے جو متن کے درون میں پوشیدہ جذبہ کی ترسیل موثر انداز میں بیان کرے۔‘‘ Lucknow Three Day workshop on Translation
پروفیسر منوج دکشت نے زبان کے معاملے میں بھارت کے امتیاز کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس ملک کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں زبانوں اور بولیوں کے رنگ برنگے پھول ایک ہی چمن میں کھلے نظر آتے ہیں۔‘‘ انہوں نے تکنیک کی مدد سے ترجمہ نگاری کے عمل کو مزید سہولت بخش اور موثر بنانے کے سلسلے میں ہونے والے تحقیقی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ان اقدامات کی مدد سے آئندہ دنوں میں اس عمل میں پیش آنے والی پیچیدگیوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اختتامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر این بی سنگھ نے بھارتیہ بھاشا سمیتی کے اراکین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’’اس ادارے کے تعاون سے ایسی کار آمد اور بامعنی ورکشاپ کو منعقد کرنا ممکن ہو سکا جس سے طلبا اور اساتذہ نے خاطر خواہ استفادہ کیا۔‘‘ انہوں نے علی گڑھ، دہلی، بنارس اور دیگر شہروں کے تعلیمی مراکز سے اس ورکشاپ میں شامل ہونے والے طلبا اور اساتذہ سے یہ توقع ظاہر کی کہ انہوں نے ان تین دنوں میں جو کچھ سنا یا سیکھا ہے اس کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائیں گے اور اپنے تعلیمی اہداف کو سر کرنے میں کامیاب ہوں گے۔